حمیدہ خاتون علیھا السلام
امام موسیٰ کاظم ؑ کی ماں حمیدہ ایک باعظمت خاتون تھی۔ ان کی فضیلت کے بارے میں یہی کافی ہے کہ امام محمد باقر ؑنے
پہلی ہی ملاقات میں ان کی بڑی تعریف کی اور اپنے بیٹے امام صادق ع سے نکاح کیا۔ وہ اپنے زمانے کی نیک اور پاکدامن عورت تھی اور امام کے ساتھ شادی کے بعد ان کے فضائل وکمالات میں اور اضافہ ہوا۔ حتیٰ امام صادق ع نے عورتوں کو حکم دیا کہ وہ ان کی بیوی سے شرعی احکام سیکھیں۔
نام لقب ونسب :سیرت کی کتابوں میں آپ کا نام اورنسب کے بارے میں علماءکے درمیان اختلاف ہے۔آپ کے کچھ القاب و کنیت ذکر ہوئے ہیں مثلا ۱۔حمیدہ ، ۲۔مصفاة ، ۳۔مھذبہ ،۴۔سیدة الاماء،۵۔سید الاماء، ۶۔لو ¾ لو ¾ة ،۷۔ام محمد۔بعض روایات میں امام کاظم ع کی ماں کے دو لقب ذکر ہوئے ہیں:(۱) مصفاة: یعنی پاک اور خالص، حمیدہ کو یہ لقب اس کے شوہر امام صادق ع نے دیا:(( حمیدہ مصفاة من الادناس)) (۲) لو ¿ لو ¿ة: ابن شہر آشوب، نے حمیدہ کی کنیت لولوہ ذکر کی ہے۔ جو کہ اشتباہ ہے کیونکہ کنیت(( ام)) کلمہ سے شروع ہوتی ہے۔ آپ کے باپ کا نام صاعد بربری تھا ۔وجناب حمیدہ کے چار بچے تھے: امام موسیٰ کاظم ع،اسحاق ،محمد اور فاطمہ کبریٰ۔مورخین کے درمیان اختلاف ہے کہ وہ کہاں پیدا ہوئیں اور کس قبیلہ سے تھیں۔امام موسیٰ کاظم عکی ماں کا نام حمیدہ بربریہ یا اندلسیہ ہے ،لیکن بربریہ زیادہ صحیح ہے(۲) امام موسیٰ کاظم ع کی ماں کنیز تھی اور ان کا نام حمیدہ اندلسیہ یا بربریہ تھا۔ بعض نے یہ لکھا ہے کہ ان کا تعلق روم سے تھا۔ (۳) امام موسی کاظم عکی ماں کا نام حمیدہ بنت سعد بربری ہے، وہ اندلس سے تھیں (۴) علی بن میسم کہتا ہے: حمیدہ اشراف عجم سے تھیں۔پس حمیدہ کا عربی نہ ہونا تمام مورخین کے نزدیک اتفاق ہے۔
خاندان ِمرکز محبت الھی میں ورود
ابن عکاشہ کہتا ہے: میں امام باقرع کی خدمت میں حاضر ہوا امام صادق ع بھی ان کی خدمت میں کھڑے تھے۔امام باقر ع نے میرا اکرام کیا اور کچھ انگور دیئے۔میں امام باقر سے عرض کیا: مولا آپ اپنے بیٹے صادق ع کی شادی کیوں نہیں کرتے جبکہ وہ بالغ ہوچکے ہیں؟ حضرت امام صادق ع نے فرمایا: یہ ر قم ہے اس سے اس کیلئے لڑکی خریدوں گا۔چند دنوں کے بعد میں دوبارہ امام کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: اب کنیز فروش موجود ہیں یہ رقم لو اور ایک کنیز خرید کر لاﺅ۔ جب میں نے کنیز فروش کے پاس پہنچا تو دو کنیزیں باقی رہ گئیں تھیں۔ میں نے ستر اشرفی دے کر کنیز خرید لی اور امام کی خدمت میں لے آیا امام صادق ع بھی امام باقر ع کی خدمت میں موجود ہے۔ابن عکاشہ کہتا ہے: کہ جب میں حمیدہ کو امام کی خدمت میں لے گیا تو سب سے پہلے امام نے پوچھا کنیز نے اپنا نام حمیدہ بتایا تو امام نے فرمایا : ((حمیدة فی الدنیا ومحمودة فی الاخرة )) تو دنیا وآخرت میں حمیدہ وپسندیدہ رہو۔
دو نور الھی کا یکجا ہونا
عصر حاضر کے دانشمند، باقرشریف قرشی ،بعض معصومین کی شادی کنیزوں کے ساتھ کے بارے میں لکھتے ہیں: آئمہ کی سیرت یہ تھی کہ جب وہ کسی کنیز سے شادی کا ارادہ کرتے تو پہلے اسے اللہ کی راہ میں آزاد کردیتے۔ پھر اسلام کی تعلیم دیتے اور پھر ان سے شادی کرتے۔امام باقر ع نے حمیدہ کو خریدنے کے بعد اس کواللہ کی راہ میں آزاد کردیا اور پھر اپنے بیٹے امام صادق ع سے نکاح کیا۔ ان کی شادی کی تاریخ معلوم نہیں جابر کہتا ہے: کہ جب امام باقر ع نے حمیدہ کو خریدا اور حضرت امام صادق ع سے عقد پڑھا تو فرمایا: اے بیٹے یہ حمیدہ تمام مہذب کنیزوں کی سردار ہے۔ وہ با عفت اور پاکدامن ضاتون ہیں اور خداوند عالم کی طرف سے تیرے لیئے سے ایک کرامت ہے۔
ساتواں نور امامت اور اس کی ضیائ
حضرت حمیدہ ع سے امام صادق ع کو بہت انسیت و محبت تھی ۔امام صادق ع جب ایک سو اٹھائیس ہجری میں اپنے کچھ اصحاب کے ساتھ حج پر گئے، تو اپنی حاملہ بیوی کو بھی ساتھ لے گئے۔مناسک حج ادا کرنے کے بعد جب ابواءکی سر زمین پہنچے، تو وہاں پر حضرت موسیٰ کاظم ع کی ولادت ہوئی۔ ابو بصیر کہتا ہے :میں جس سال امام جعفر صادق ع کے ساتھ حج پر گیا اور جب ہم ابواءکے مقام پر پہنچے، تو امام موسیٰ کاظم ع کی ولادت ہوئی۔ امام صادق ع بہت ہی خوش تھے، حمیدہ کے پاس گئے اور تھوڑی دیر کے بعد مسرت کی حالت میں واپس لوٹے اور اپنے اصحاب سے فرمایا :میرا بیٹا پیدا ہوا ہے اور ولادت کے وقت اس نے دونوں ہاتھ زمین پر رکھے اور اپنے سر کو آسمان کی طرف بلند کیا۔یہ انبیاءاور اوصیاء کی ولادت کی نشانی ہے۔منہال قصاب کہتا ہے: جب میں مکہ سے مدینہ گیا اور جب ابواءکے مقام پر پہنچا تو دیکھا کہ خدا نے امام صادق ع کو فرزند عطا کیا۔
تریبت امام صادق ع
امام صادق ع نے تعلیم و تربیت جناب حمیدہ پر خاصی توجہ رکھی اس طرح کے آپ ایک وہ خاتون بنیں جو کہ عالمہ بھی ہیں تو فقیہ و مربی بھی بنیں ۔
آپ کا کام اب نشر رسالت ﷺ تھا اسی لئے آپ مسلمان خواتین کی اپنے وقت کی نمائندہ بھی کہی جا سکتی ہیں
امام صادق ع کی پرورش کا کامل نمونہ ہیں کہ دانش و پرہیزگاری ، ایمان اپنے عصر کی خواتین سے زیادہ تھا اسی لئے تدریس ِ فقہ ، تعلیم احکام شرعی خواتین آپ کے کاندھے پر تھی۔
فقیہ آل محمد ﷺ
امام صادق ع نے اپنی بیوی کی تعلیم وتربیت کا انتظام کیا، انہیں اسلام کے معارف بتائے۔ حضرت کی صحبت میں حمیدہ کے علم میں اضافہ ہوتا گیا۔حتیٰ کہ ایک دن حمیدہ علوم اہل بیت لوگوں تک پہنچانے کے فرائض ادا کرنے لگی۔کئی بار امام صادق ع نے نصیحت کی کہ
مسلمان عورتوں کو تعلیم دیں۔ شیخ عباس قمی لکھتے ہیں:وہ ایک عالمہ اور فقھیہ تھیں۔ تمام عورتیں مسائل اور احکام کے لیے آپ کے پاس
جاتیں تھیں۔عبدالرحمن بن حجاج کہتا ہے: میں نے امام صادق عسے سوال کیا۔ حج میں ہمارے پاس ایک بچہ بھی ہے اور اس کا حج بجالانا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا :بچے کی ماں کو کہو کہ وہ حمیدہ کے پاس جائے اور مسائل سیکھے۔ اس بچے کی ماں حمیدہ کی خدمت میں گئی اور مسائل پوچھے۔ انہوں نے کہا: جب ترویہ کا دن آئے تو بچے کے سلے ہوئے کپڑے اتاردیں۔ پھر اس کی طرف سے احرام کی نیت کریں۔ جب دہم ذی الحج آئے تو اس کی طرف سے شیطان کو پتھر ماریں اس کے سر کے بال کومنڈوائیں اور بیت اللہ کی زیارت کروائیں اور پھر کنیز کو حکم دو کہ اسے کعبہ کا طواف کرائے اور پھر صفا ومروہ کے درمیان.
محدثہ امام صادق ع
ابو بصیر کہتا ہے: امام صادق ع کی وفات کے بعد حمیدہ بربریہ کی خدمت میں ہم حاضر ہوئے اور انہیں تسلیت عرض کی وہ رونے لگی اور پھر فرماتی ہیں: ((لو رائیت ابا عبداللّٰہ عند الموت لرائیت عجباً فتح عینیہ ثم قال اجمعوا لی کل من بینی وبینہ قرابة فلم نترک احداً الا جمعناہ فنظر الیھم ثم قال ان شفاعتنا لا تنال مستخفا بالصلوة))اے ابو بصیر! اگر تو ابا عبداللہ کو موت کے وقت دیکھتا تو ایک عجیب چیز مشاہدہ کرتا انہوں نے اپنی آنکھوں کو کھولا اور فرمایا میرے رشتہ داروں کو بلاﺅ جب ہم جمع ہوگئے تو فرمایا جو شخص نماز کو اہمیت نہیں دیتا اسے ہماری شفاعت نصیب نہیں ہوگی۔
شوہر کی وصی
:ابو ایوب نحوی کہتا ہے :کہ ایک رات ابو جعفر منصور نے مجھے بلا بھیجا میں گیا اور دیکھا کہ وہ ایک خط پڑھ رہاتھا۔ اس نے وہ خط میری طرف پھینکا اور کہا کہ خط مدینہ کے حاکم محمد بن سلمان کا ہے کہ جس میں اس نے امام جعفر صادق ع کی وفات کی خبر لکھی ہے۔ پھر تین بار کہا((انا للہ وانا الیہ رجعون)) ؛جعفر بے نظیر تھے پھر مجھ سے کہا: مدینہ کے والی کو خط لکھو کہ وہ تحقیق کرے کہ جعفر بن محمد کا وصی کون ہے تاکہ اس کا سر قلم کرے۔میں نے خلیفہ کے حکم سے مدینہ کے والی کو خط لکھا۔ چند دنوں کے بعد خط کا جواب اس طرح آیا: جعفر بن محمد نے پانچ افراد کو اپنا وصی قرار دیا ہے:(۱) شخص خلیفہ،(۲) والی مدینہ،(۳) اپنا بیٹا عبداللہ، (۴) اپنا بیٹا موسی کاظم ع(۵) اپنی بیوی حمیدہ بربریہ۔جب خلیفہ کو یہ خط ملا تو ہنسا اور کہنے لگا کہ اب میں ان پانچ افراد کو کیسے قتل کروں۔علامہ مجلسی لکھتے ہیں: امام صادق ع جانتے تھے کہ منصور ان کے وصی کو قتل کردے گا۔ لہذا خلیفہ اور مدینہ کے والی کو ظاہری طور پر اپنا وصی بنایا۔
حضرت حمیدہ علماءو دانشوران کی نگاہ میں
۱۔مورخین لکھتے ہیں کہ : حمیدہ بہ لحاظ عفت و فقہ و کمال اپنے عصر کی خواتین میں بے نظیر تھیں۔
۲۔حمیدہ مصفاءمادر ابوالحسن موسی بن جعفر ع اشراف و بزرگان عجم میں سے تھیں
۳۔شیخ عباس قمی لکھتے ہیں کہ والدہ امام موسیٰ الکاظم از اشراف اعاظم سے تھیں۔
۴۔حمیدہ اندلسیہ یا بربیہ بلند پایہ تقویٰ و شائیستگی کی حامل تھیں
۵۔آقاءباقر شریف کہتے ہیں کہ
خداوند نے ان کو شرافت و فضل سے مخصوص کیا اور اپنی عنایت کا مرکز قرار دیا اور اسی لئے امامت ان کی خواستگار بنی اور آپ جای گاہ کرامت و فضیلت قرار پائیں۔
۶۔علامہ مامقانی اپنے ترجمہ میں توصیف حضرت حمیدہ ع نقل کرتے ہوئے کہتے ہین کہ :
یہ بانو جلیل القدر ”من لا یحضر ہ الفقیہ “ کی سند میں بہ عنوان حمیدہ بربریہ ذکر ہوئی ہیں اور کتاب عیون اخبار الرضا ع میں حمیدہ مصفاہ کے عنوان سے ۔ ان کا لقب لولوہ ہے اور یہ بانو متقی و ثقہ تھیں۔
حوالہ:
زنان نامدرا
عیون اخبار الرضا ع
منتھی الامال
اعلام الھدی
تنقیح المقال
ابنا نیوز ایجنسی