twitter
rss

بسمہ تعالیٰ

حضرت بی بی آمنہ بنت عبد مناف سلام اللہ علیھا

نسب حضرت آمنہ ع

حضرت آمنہ دختر وھب عبد مناف کی بیٹی ہیںجن کا نام مغیرہ ہے اور لقب ”قمر البطحائ“ہے ان کی بعض خصوصیات کی بناءپر لوگ ان کو بہت پسند کرتے تھے جیسے پرھیزگاری ، لوگوں کے ساتھ ساتھ اچھا سلوک ، صلح رحمی اور لوگوں کو تقویٰ کی دعوت دینا اس کے علاوہ حجاج بیت اللہ الحرام کی دعوت کرنا اورحجاج کرام کو پانی پلانا بھی فرزندان عبدمناف کا کام تھا یہ پرشکوہ کام پیمبر اکرم ﷺ کی آمد تک اولاد عبدمناف خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے۔ اور آپ کی والدہ ©”برہ“ دختر عبدالعزیٰ ہیں یہ دونوں بزرگ ہستیاں کلاب بن مرہ بن کعب بن لویٰ تک پہنچتا ہے در و حقیقت حضرت بی بی آمنہؑ کے والد و والدہ +پس میں رشتہ داریعنی چچا زاد تھے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ برہ مادر آمنہؑ کی والدہ ام حبیبہ بھی اسی نسب کی حامل ہیں اور بہترین شجرے ” ارحام مطھرہ “ سے وابستہ ہیں۔
خصوصیات حضرت آمنہ س
کوئی مثال نہیں! حضرت آمنہ ؑ بہترین خصوصیات کہ جو ایک نیک انسان و شائستہ انسان کی ہونی چاہی ¾ے کی حامل تھیں جو کہ ان کی عظمت و کمال کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
برجستہ ترین صفات جو حضرت عبدالمطلب ع پیر بطحا کی زبان صدق سے بیان ہوئی ہے ، عبد المطلب ع نے خواستگاری سے قبل حضرت آمنہ ع کے پاس جو کہ ایک خوبصورت و جوان و غیور انسان ہیں آئے اور اس طرح فرمایا:
فو اللہ ما فی بنات اھل مکہ مثلھا لانھا محتشمہ فی نفسھا طاھرہ مطھرہ عاقلہدیہ
اللہ کے عزت و جالال کی قسم !مکہ میں کوئی لڑکی آمنہ کی مثل نہیں ہے۔
با حیا! وہ ایک شریف النفس اور بہترین خاتون تھیں خاص انکی جو صفت بیان ہوئی ہے وہ حیا و عفت ہے۔وہ بھی ایک ایسے زمانے میں جبکہ گناہ کرنا اچھا اور کمال گردانا جاتا ہے جو جتنا بڑا گناہ گار ہوتا تھا اس کی اتنی تعریف و مثال دی جاتی تھیں۔ اسی زمانے میں بنی ہاشم اور چند خاندان والے دین ابراہیم پہ باقی تھے۔ جن میں سے ایک گھرانا خود حجرت آمنہ کا بھی تھا۔کیوں کے وہ ایک با حیا ، ادب ، پاکیزگی نفس ، عاقل ، فھیم و دین دار خاتون تھیں۔ان کی عفت و پاکیزگی اتنی زیادہ تھی کہ تاریخ میں لکھا ہے
”وہ اپنے زمانہ میں نسب و ازدواج کے لحاظ سے قریش کی بافضیلت خاتون تھیں۔
سادہ طرز زندگی! حضرت آمنہ ؑ کی صفات میں سے ایک ان کی سادہ طرز رہائش اور مادیت سے دوری بھی ہے۔
اس طرح سے کہ رسولﷺ خود فرماتے ہیں : انما انا ابن امرائہ من قریش تاکل القدید 
میں قریش کی اس خاتون کا فرزند ہوں جو خشک گوشت کھاتی تھیں۔

دین دار 

رسولﷺ کو ”سید الناس اور دیان العرب“کے لقب سے پکارا جاتا ہے ، امام علی ع کو بھی نیز ان ہی اوصاف سے توصیف کی جاتی ہے ۔
کچھ کوتاہ نظر دانشور کہتے ہیں کہ “کیوں کے آمنہ قبل از ظھور اسلام کی شخصیت ہیں لھذا مومن نہیں ہوسکتی ہیں اور مشرک خواتین میں شمار ہوں گی“ لیکن مورخین اور دانشوران کہتے ہیں کہ شیعہ اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ پدر بزرگوار و والدہ گرامی قدر انبیاءع صاحب ایمان ہوتے ہیں ۔ اور اس مطلب کے اثبات و استدلال کیلئے وہ رسولﷺ کے اقوال کو بیان کرتے ہیں 
لم یزل ینقلنی اللہ من اصلاب الشامخہ الی الارحامالمطھرات حتی اخرجنی الی عالمکم ھذا و لم یدسننی دنس الجاھلیہ
خداوند نے مسلسل مجھے پاک اصلاب و پاک رحام میں منتقل کرتا رہا یہاں تک کے اس دنیا میں آگیا اور ہرگز ناپاک و نجس جاھلیت و افکار سے آلودہ نہیں ہوا۔
اس حدیث شریف کہ جو مختلف عبارتوں میں اسی مفھوم کے ساتھ بیان ہوئی ہے بتاتی ہے کہ حضرت آمنہ ع کا وجود فکری نجاست سے بھی پاک ، طاھر تھا ۔بہت سے دانشور اھل سنت ایمان حضرت آمنہ ع کو بیان کرتے ہیں ان میں سے ایک حاضر خدمت ہے:
کعب الاحبار نے معادیہ سے کہا :” میں نے بہتر کتب میں پڑھا ہے کہ فرشتے جز مریم ، آمنہ بنت وھب کسی پیغمبر کی ولادت کے لئے زمین پر نہیں آئے اور سوائے مریم و آمنہ ع کسی عورت کیلئے بہشتی حجابات قائم نہیں کئے ہیں ۔“
امام صادق ع بھی فرماتے ہیں :
جبرئیل رسولﷺ پر نازل ہوئے اور فرمایا : یا محمد ان اللہ جل جلالہ یقرئک السلام و یقول انی قد حرمت النار علی صلبانزلک و بطن حملک و حجر کفلک ۔۔۔
اے محمد ﷺ خداوند عالم آپ پر سلام بھیجتا ہے اور فرماتا ہے” : میں نے آتش کو آپ کی صلب و اس پشت کہ جس میں آپ آئے ہیں اور وہ بطن جس میں آپ ﷺ نے قیام فرمایا اور وہ دامن جس میں آپ نے تربیت پائی اس پر حرام کردیا ہے“

باادب و باکمال!

حضر ت آمنہ ع کی ایک خصوصیت کہ آپ با حیا و باادب ہیں ۔ اس کیلئے آپ لقب ”محتشمہ“ سے عرب کے درمیان معروف تھیں۔
لغت کی کتب میں وہ اس طرح سے بیان ہوا ہے :
احتشام وھو افتعال من الحشمہ بمعنی الانقباض و الاستحیاءو الحشمہ الحیا ءو الادب
احتشام حشمت سے لیا گیا ہے اور اس کے معنی ہیں حیا کو حاصل کرنا اور حیا کے حامل ہونا ۔ حشمت کے معنی حیا و ادب کے ہیں اور خوبصورت ترین صفت ہے کہ جو حضرت آمنہ ع کو حاصل تھا جس کی وجہ سے وہ جسمانی و روحانی آسودگی کی حامل تھیں۔
جس وقت ھمسر عبدالمطلب ”فاطمہ“ خواستگاری کیلئے منقعد مجلس میں تھیں انھوں نے ادب و حیا حضرت آمنہ ع کو اس طرح بیان فرمایا:
حُسن!جس وقت ھمسر عبدالمطلب وھب بن عبد مناف کے گھر آئیں اور آمنہ ان کے سامنے کھڑی ہوئیں اور انھوں نے دیکھا تو آمنہ ع کی والدہ سے فرمایا:
میں پہلے بھی آمنہ ع کو دیکھ چکی ہوں مگر میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس قدر حسین و باکمال ہوں گی۔۔
پھر حضرت آمنہ ع سے گفتگو کی ان کو فصیح ترین خاتون مکہ مکرمہ پایا پھر آپ جب اس تقریب سے گھر تشریف لائیں تو جلدی حضرت عبداللہ ع کے پاس پہنچیں اور فرمایا:
”بیٹے میں نے عرب کی لڑکیوں میں اس جیسی لڑکی نہیں دیکھی ہے میں نے انھیں پسند کرلیا ہے۔“
فھم و عقل!
فھم ، عقل و دانش جیسی صفات کا حامل ہونا اولیاءاللہ کی صفات میں سے ہے عبدالمطلب ع نے حضرت آمنہ ع کو عاقلہ کا خطاب دیا۔
ٓٓآمنہ عقلیہ عرب ، فھم و ادراک میں بے نظیر تھیں اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ جب آپ س کا آخری وقت قریب تھا اپنے پیارے بیٹے محمد ﷺ سے فرمایا:
ہر زندہ کو موت آنی ہے ، ہر نئے کو پرانا ہونا ہے ، ہر چیز کو فنا ہے اور میں مر رہی ہوں لیکن میری یاد ھمیشہ رہے گی۔ میں نے خیر چھوڑا ہے اور ایک پاک و مطھر بچہ (آپ ﷺ ) جیسا پیدا کیا ہے۔“
فصاحت و بلاغت اور شیرینی بیان!
حضرت آمنہ ع کی دیگر صفات میں سے ایک شیریں بیانی و بلاغت ہے ۔
خوبصورت اشعار جو آپ سے منسوب ہیں وہ گواہ ہیں کہ آپ کس قدر فصیح و بلیغ تھیں۔
عالمہ و پیشن گوئی!
آپ اپنے وقت کی عالمہ اور بہت سے کمالات کی مالک تھیں ۔ آپ کی گود پیمبر آخرﷺ کی تربیت گاہ بنی ہے تو آپ کو خدا نے کن کن کمالات سے سرفراز نہ کیا ہوگا۔آپ کے علم اور کمالات کے مظہر وہ اشعار میں جو آپ نے اپنے فرزند ﷺ سے مخاطب کر کے کہے۔ مثلاً
انھوں نے بہت سے شعر اپنے پیارے بیٹے محمد ﷺ کہا :
اگر میں نے جو خواب دیکھا ہے وہ درست ہے تو،تم لوگوں پر مبعوث ہوگے ، از طرف خداوند جلال و اکرام 
حلال و حرام کے بیان کرنے کیلئے مبعوث ہوگے ، حق گوئی و اسلام جو کہ آپ کے جد ابراھیم کا ہے اس کو پھیلائیں گے ، پس خداوند تم کو بتوں کی پرستش و اس کی پیروی سے دور رکھے گا۔
طاھرہ ، مطھرہ و عفیفہ 
پاکیزگی و طھارت حضرت آمنہ ع اھل مکہ سے پنہان نہیں تھی ، یہ طھارت مختلف مناسبتوں سے عربوں کی گفتگو اور ان کے اشعار سے عیاں ہوتی ہے۔ حضرت آمنہ ع کی توصیف میں اس طرح لکھتے ہیں :بے شک ان کا چہرہ (آمنہ ع) پاکیزہ چاند جیسا تھا اس میں زیبائی ، کمال اپنے زمانے کی خواتین سے زیادہ تھی ، صفات و خاندانی صفات کے لحاظ سے آپ سب میں بہترین تھیں ۔ وہ ظاھری پاکیزگی کے ساتھ ساتھ باطنی پاکیزگی (معنویت ) کی حامل تھیں۔

ازدواج آمنہ ع 

شادی کے متعلق بات کرنے سے قبل ہم چند امور کی طرف متوجہ کروانا چاہیں گے
۱۔انتخاب و معیار انتخاب 
حضرت عبداللہ ع کے گھر کی طرف سے معیار انتخاب :عبدالمطلب و ان کی ھمسر نے اپنے چاند ِ مکہ عبداللہ کے لئے جو معیار بنائے وہ دو تھے
٭۔بہترین خاندان اور٭۔ خود شخص کی اپنی خصوصیات
خاندان حضرت بی بی آمنہ ع نے بھی شوہر کے انتخاب کیلئے جو معیار بنائے ان میں مادیت کا عمل دخل نہیں ہے بلکہ کمال عظمت ِ روحی و معنوی حضرت عبداللہ کے خاندان کو پیش نظر رکھا ۔
۲۔ مھر کے لئے تاریخ گواہ ہے حضرت آمنہ ع کے والد گرامی نے خواستگاری کے بعد عبدالمطلب سے فرمایا: ”میری بیٹی آپ کے بیٹے کیلئے تحفہ ہے ہمیں کوئی مھر نہیں چاہیئے ۔“
عبدالمطلب ع نے فرمایا :” خداوند آپ کو جزائے خیر دے لڑکی کا ضروری ہے کہ مھر ہو ہمارے رشتہ دار اس پر گواہ ہوں گے ۔“
مھر ایک معنوی حیثیت نہیں رکھتا ہے جو کہ معنوی اور اجتماعی خصوصیات کی جگہ لے سکے ۔ اھلبیت ع کی ڈکشنری میں کم مھرکا ہونا بتاتا ہے کہ لڑکی بہترین ہے اپنے زمانے کی لڑکیوں کے مقابلے میں ۔ 
بہر حال یہ شادی مھر و جھیز کے ساتھ انجام پذیر ہوئی اور مقدمہ قرار پائی تاکہ وجود مبارک نازنین رسولﷺ دنیا میں تشریف لائیں۔

حضرت آمنہ ع بطورزوجہ!

ابھی پہلاو دل عزیز بیٹا دنیا میں نہی آیا تھا کہ مہربان و دل سوز شوھر کی وفات کی غم اندوہ اطلاع آپ کو ملی ۔ لطف الھی ، بردباری ، وہ اشعار جو آپ نے شوھر کی جدائی میں کہے 
ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کس قدر اپنے شوہر کی اطاعت گزار اور ان کی وفادار تھیں۔
آمنہ ع بطور ماں!
شوہر کی جدائی کے بعد جو خواب جو آپ نے حمل کے زمانے میں دیکھے اور بیٹا جو کہ پیدائش سے پہلے ہی پماں سے باتیں کرتا تھا بس وہی حضرت آمنہ ِع پاک دامن کا سرمایہ تھا۔ 
حضرت آمنہؑ کی یاد!
”جارود “ جس وقت رسولﷺ کے پاس آیا تو اس نے اس طرح کہا
اتیتک یابن آمنہ الرسولا لکی بک اھتدی النھج السبیلا
”اے پسرآمنہؑ: اے رسولﷺ میں آپ کی طرف آیا ہوں تاکہ آپ کے وسیلہ سے راہ ھدایت پا سکوں“
پیارے نبیﷺ پاک کوان کی والدہ گرامی کا حوالہ دے کر لوگ آپ کی نسلی طہارت کا اقرار کرتے تھے اور نرمیِ دل اور اور شیرینی ِ گفتارماں کی محبت اور پیار کو یاد دلا کربیٹے کا دل جیتنا چاہتے تھے۔
حضرت آمنہؑ ہمارے عشق دل کی پہچان! 
اب کئی سو سال گذرنے کے بعدبھی مسلمان اس آسمانی انسان کے نام کے وسیلے سے نماز عشق پڑھتے ہیں محراب عشق پر جا کر سرو د عشق کی اذان دیتے ہیں۔ مثلاً ”جشن آمد رسول ﷺ اللہ ہی اللہ ،بی بی آمنہ ؑکے پھول اللہ ہی اللہ“کس شیرینی والی نعت ہے جب جب پڑھی جاتی ہے محبت سے روح تک سرشار ہو جاتی ہے۔اور سننے والوں کے کان و دلوں کو گرما دینے والے الفاظ سے فیض اٹھاتے ہیں ۔
جی ہاں!تاقیامت مسلمان ہر جگہ ، تاریخ کے ہر حصے میں اس بانگ عشق سے سر زمین کو معطر کرتے رہیں گے۔
ماخوذ: از آوینی ڈاٹ کام