از قلم: شبیہ زہرا جعفری
! اپنے امی ابو کو خوش کرنے کے 10طریقے
! اپنے امی ابو کو خوش کرنے کے 10طریقے
! اپنے امی ابو (ممی پاپا) کو خؤش کیجئے
ہر بچہ کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے ماں باپ اس سے خوش رہیں اور اس کے والدین کبھی اس پہ ڈانٹ پھٹکار نہ کریں۔ وہ اپنے والدین کو ہمیشہ خوشگوار موڈ میں دیکھنا چاہتا ہے۔ جب اس کے والدین غصے کی حالت میں ہوں چیخیں چلائیں تو وہ سمجھتا ہے کہ اب سب کچھ ختم ہوگیا ڈر اورر خوف کے مارے اس کا برا حال ہوجاتا ہے۔اور اس ڈر اور خوف کی بناء پر وہ بہت سارے کام غلط کر جاتا ہے۔
ہر بچہ کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے ماں باپ اس سے خوش رہیں اور اس کے والدین کبھی اس پہ ڈانٹ پھٹکار نہ کریں۔ وہ اپنے والدین کو ہمیشہ خوشگوار موڈ میں دیکھنا چاہتا ہے۔ والدین کو خوش کرنے کے لئے بچوں کو بھی بہت ساری محنت کرنی پڑتی ہے جس طرح والدین کو بچوں کو خوش کرنے کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے۔لیکن یہ مت سوچئے گا اسکول ، ٹیوشن اور ہوم ورک کے بعد پھرمحنت!جی نہیں یہ اس طرح کی محنت نہیں ہے لیکن یہ محنت ہر محنت پہ حاوی اور سب سے زیادہ خوشی اور سکون دینے والی ہے۔ ڈک کلارک کہتے ہیں کہ اگر آپ بہت دیر تک جوان رہنا چاہتے ہیں تو اپنے والدین کا خیال رکھئے۔
آئیے ہم بھی دیکھیں کہ ہم بچوں کو اپنے والدین کو کیسے خوش کرنا چاہیئے ! تاکہ ہمارے والدین بھی ہمیشہ ہم سے خوش رہیں اور یونہی ہنستے مسکراتے رہیں۔
ہم ابھی صرف دس طریقوں کی بات کریں گے جس سے ہم اپنے امی ابو کو خوش کر سکتے ہیں۔
.١۔ مدد کیجئے!
اسکول سے گھر آنے کے بعد اپنے والدین کی مدد کیجئے ان کے کاموں کو کرنے میں جتنا وہ آپ سے کہیں اتنا ان کا کام کر دیجئے۔ خاص کر اپنی امی کے کاموں میں ان کی مدد کیجئے جب وہ کھانا پکائیں یا دستر خوان بچھا رہی ہوں ۔ یہ مت سوچئے کہ آپ کو لڑکے ہیں آپ کا کام گھر کے کام کرنا نہیں! ایسا ہر گز نہیں ہے کہ لڑکے گھر کے کام نہیں کرتے امام علیّ گھر کے کاموں میں جنابَ سیدہّ کا ہاتھ بٹاتے تھے، اور امام خمینی گھر کے کاموں میں اپنی بیوی کی مدد کیا کرتے تھے۔
!طریقے
مشہور مفکر اکمبس کہتا ہے کہ ہم اس لئے دنیا میں آئے ہیں تاکہ ہم دوسروں کے لئے فائدہ مند ثابت ہوں۔
اس لئے اٹھ جائیے اور سب سے پہلے وہ ہستی جسے ہم سے فائدہ ہونا چاہئیے وہ ہمارے امی ابو تو ہیں۔
٢۔شکریہ ادا کیجئے!
کوشش کیجئے کہ اپنے والدین کا شکریہ ادا کرتے رہئیے وقتا فوقتا انہیں احساس دلاتے رہیں کہ ان کا ہر چھوٹے سے چھوٹا کام آپ کے لئے کتنا اہم ہے!
مثلا ان کا کھانا پکانا آپ کے کپڑے دھونا! آپ کے اسکول کی فیس جمع کرنا! پیرنٹس ٹیچر میٹنگ میں ان کا آنا! آپ کے لئے ان کا کام پہ جانا آپ کے لئے کپڑے بنانا اور آپ کے لئے ہر وہ کام کرنا جو آپ کے لئے فائدہ مند ہے!
کی کرسکتا ہے آپ کے لئے یہ سب کوئی اور!
تو آپ انہیں ہر لمحہ احساس دلائیے کہ آپ کے لئے کتنے اہم اس قدر ضروری ہیں !
اور آپ کے لئے کتنے اچھے ہیں کوئی اور والدین ہوتے تو وہ سب نہ کرتے جو یہ آپ کے لئے کرتے ہیں۔
خدا قرآن میں سورہ لقمان آیت نمبر ١٤ میں فرماتا ہے کہ“ میری شکر گزاری کرو اورر اپنے ماں باپ کا بھی شکریہ اداد کرو
ایک شخص نے رسولَ خدا سے کہیں جانے کی اجازت طلب کی اور کہا کہ میری امی نہیں چاہتی کہ میں اس سے جدا ہوجائوں قور کہیں جائوں۔
رسول خدا نے فرمایا کہ “ جائو اور اپنی ماں کے پاس رہو اس اللہ کی قسم جس نے مجھے مبعوث فرمایا ہے تم جو ایک رات ماں کی خدمت میں گزارو گے اور وہ تمہیں دیکھ کر خوش ہوگی تمہارے لئے اس کا ثواب ایک سال کے جہاد سے زیادہ ہوگا
امام جعفر صادق علیہ السلام مصباح الشریعہ میں فرماتے ہیں کہ ماں باپ سے نیکی اور احسان کرنا خدا شناسی کی دلیل ہے کیونکہ کوئی اور عبادت ماں باپ کے احترام کی مانند اللہ کو خوش نہیں کرتیئ۔
٣۔: اپنے والدین کا احترام کیجئے
ہر ممکن کوشش کیجئے کہ اپنے والدین کا احترام کریں ان کے احترام میں کبھی بھی کوئی کمی نہ رہ جائے ۔ جب گھر میں صرف آپ اور آپ ن کےوالدین پہوں تب بھی ان کا احترام کیجئے اور اگر کوئی اور گھر میں ہو تب بھی ان کے احترام میں کوئی کمی نہ آئے یہ آپ کے والدین ہیں جنہوں نے آپ کو پالا پوسا پڑھایا لکھایا اور اب آپ کی ہر ضرورت کا خیال رکھا اب آپ کی ذمہ داری ہے کہ ان کے احترام اور عزت و تکریم میں اضافہ کیجئے!ایڈیسن کو اسکول سے نکال دیا گیا تھا یہ کہہ کر کہ یہ ڈل سٹوڈنٹ ہے اور اس کی امی نے کہا کہ یہ احمق اورڈل نہیں بلکہ ذہین ہے۔
ایڈیسن نے کہا کہ “ مجھے بچپن میں ہی معلوم ہوگیا تھا کہ میری ماں کتنی اچھی ہے جب استاد نے مجھے احمق کہا تو اس نے میرا دفاع کیا ۔ میں نے اسی وقت پختہ ارادہ کرلیا کہ میں ثابت کروں گا کہ میری ماں نے میرے بارے میں غلط رائے قائم نہیں کی تھی۔“
ایڈیسن نے اپنی ماں کی عزت و تکریم اور ان کی نیکی اور ان کا نیک ارادہ کس طرح بڑھایا یہ آج سب جانتے ہیں اب اپنے والدین کی عزت و تکریم میں اضافہ آپ سب کی ذمہ داری ہے کہ کس طرح سے کس کس کام سے ان کی عزت بڑھائی جائے۔
خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ اپنے والین کے ساتھ نیک سلوک کرو(سورہ بنی اسرائیل) اور ہمارے نبی فرماتے ہیں کہ جنت مائوں کے قدموں کے نیچے ہے“
اب یہ احترام کیسے ہوگا یہ موقع کی مناسبت پر منحضر ہے مثلا یہ احترام کبھی بان کا کہنا ماننے میں ہو سکتا ہے کبھی ان کے اشاروں کو سمجھنا کبھی ان کے کسی کام کو انجام دینا
اور ان سب کو سمجھنے کے لئے آپ کا والدین کو وقت دینا پڑے گا۔ جتنا ٹائم آپ ان کے پاس گزاریں گے ان کو سمجھتے جائیں گے۔والدین کو خوش کر کے ہی کامیابیاں ملتی ہیں۔جیسا کہ ڈک کلارک کہتے ہیں کہ فٹ بال کے مشہور کھلاڈی مائیکل جارڈن کہتے ہیں کہ میرے والدین میرے ہیرو تھے اور ہیں اور میں ان سے بڑھ کر کسی کو ہیرو نہیں مانتا۔
: ٤۔ غصہ کے وقت!..
اگر آپ کے والدین غصے میں ہیں تو اب کیا کریں؟
پہلے تو یہ جان لیں کہ اگر والین غصے میں اور ان کا غصہ میں ہم سے برقرار رہے تو کیا ہوگا؟
اسلام میں والدین کا غصہ اولاد کے لئے بد بختی اور گناہ کا سبب مانا گیا ہے۔ بعض روایات میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ جو اپنے والدین کےساتھ بدسلوکی کریگا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا
۔ایک شخص بہت بیمار تھا رسولَ خدا ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے دیکھا کہ وہ تو بہت خراب حآلت میں ہے آپ نے اس سے کہا کہ کلمہ پڑھو مگر وہ زبان سے ایک لفظ بھی نہیں بول سکا آپ نے اس کے گھر کی ایک عورت سے پوچھا اس کی ماں موجود ہے؟ اس نے کہا جی۔ آپ نے اسے بلایا اور پوچھا کہ کیا تم اس سے ناراض ہو؟ اس نے کہا کہ ہاں چھ سال ہوگئے ہیں میں نے اس سے بات تک نہیں کہ ہے۔رسولَ خدا نے اس سے کہا کہ اس کی غلطیاں معاف کر دو اور اس درگزر کرو۔ اس نے کہا کہ آپ کی خاطر میں نے اسے معاف کیا اور اب اس سے راضی ہوں۔
سرور کائنات نے اب اس سے کہا کہ کلمہ پڑھو تو اس کی زبان کھل گئی اور اس نے کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھ لیا۔۔ خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوجائیں تو انہیں اف تک نہ کہو(سورہ اسریٰ آیت نمبر ٢٣)
بلکہ ان کے ساتھ ہمیشہ اچھی اور شریفانہ انداز مین بات کرنی چاہیئے۔ جب وہ غصہ میں ہوں تو ہمیں چاہئیے کہ:
١۔ نظر نیچی رکھیں
٢۔ان بات کو سن لیں
٣۔ ان کی بات کر رد نہ کریں
٤۔ان کو کہنے دیں جو وہ کہنا چاہیں۔
٥۔خاموش رہیں۔
٦۔وہ اس وقت وہ کہیں اس پر عمل کریں
٧۔چیخیں نہیں،
٨۔ چلائیں نہیں۔
٩۔روئیں جتنا دل چاہے
١٠۔آنسو چہرے پہ بہنے دیں تاکہ وہ آپ کے گرتے بہتے آنسو دیکھ لیں
٩۔روئیں جتنا دل چاہے!
١١۔ان سے معافی مانگیں۔ معزرت کر لیں چاہے آپ کی غلطی نہ ہو
١٣۔چہرے پہ شرمندگی کے آثار لے آئیں۔
١٤۔ ان سے لپٹ جائیں۔
١٥ ان کو بوسہ دیں۔
١٦۔ان کو پانی پلائیں
١٧۔ان کے پائوں کے پاس بیٹھ جائیں۔
١٩۔ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر ان کو کہپیں کہ میں آپ سے محبت کرتا یا کرتی ہوں۔
٢٠۔میری غلطی تھی میں آئندہ ایسا نہیں کروں گی یا نہیہں کرونگا۔
٥۔ والدین کے ساتھ نرمی کے ساتھ گفتگو!
والدین کے ساتھ کوشش کیجئے کہ ہلکی اور نرم آواز میں گفتگو کی جائے۔ ان سے زور سے تیز آواز اور غصہ بھرے لہجے میںض گفتگو نہ کیجئے۔ورنہ والدین کو ناصرف برا لگے گا بلکہ دہ غم زدہ بھی ہو جائیں گے۔اس لئے کوشش کیجئے کہ اپنی امی ابو کے ساتھ دھیمے اور نرم لہجے میں گفتگو کریں۔
قرآن میں ارشاد ہے کہ والدین کے ساتھ نرمی سے بولو( سورہ اسریٰ آیت نمبر ٢٣) اور اصول کافی میں ہے کہ امام جعفر صادقّ نے سورہ اسریٰ کی آیت نمبر ٢٣ کے معنی کہ “ والدین سے نرمی سے بولو“ کے معنی پوچھے تو آپ نے فرمایا کہ اس کے معنی ہیں کہ اگر وہ تمہیں ماریں بھی تو تم ان سے کہہ دو کہ خدا آپ دونوں کو بخش دے۔
دیکھکا آپ نے کہ خدا بھی یہی چاہتا ہے کہ ہم اپنے والدین کے ساتھ نرم لہجے میں بات کریں ان کی دل آزاری نہ کریں ان سے تیز لہجہ میں کوئی بھی بات نہ کرٰیں یہاں تک کہ وہ اگر ہمیں کسی غلطی یا غطا پہ ہمیں ماریں تب بھی ان سے چیخ چلا کر بات نہ کریں بلکہ دعائیہ لہجہ اختیار کریں اور ان کے لئے ہمیشہ خود کو جھکا کر رکھیں اور ان کو ہمیشہ اپنے بڑا اور بر تر سمجھیں۔
اول تو کوشش کریں کہ کوئی ایسا کام ہی نہ کریں جن سے ہمارے والدین ناراض ہوں اور ہم پر غصہ کریں۔ ہمیشہ ان کی پسند اور ناپسند اپنے سامنے رکھیں اور ان کی مرضی کے بغیر کسی کام کو انجام نہ دیں۔اور اگر غلطی ہوجائے تو فورا ان کے علم میں وہ بات لے آئیں تاکہ ان کو غصہ نہ آئے اور وہ ہم پہ غصہ بھرا لہجہ اختیار نہ کریں۔
اور جب کسی وجہ سے امن کو غصہ آ جائے تو ہم خود کو ان کے سامنے سرینڈرکردیں اور خاموش ہوجائیں۔
٦۔ محبت بھری نگاہ ڈالئے
اپنے والدین کو ہمیشہ محبت بھری نگاہوں سے دیکھئے اور ان کو پیار بھری نظروں کے حصار میں رکھے۔
ماں باپ کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھنا خود ماں اور باپ کو دلی سکون بھی دیتا ہے اور خدا کو بھی اچھا لگتا ہے۔رسولِ خدا صل علی علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ اولاد کا اپنے والدین کو بحبت بھری نگاہ سے دیکھے تو ہر نگاہ کے بدلے ایک قبول ہونے والے حج کے برابر یقینی ثواب ہے،لوگوں نے کہا کہ اگر کوئیب ہر روز سو مرتبہ دیکھے تو؟آپ نے فرمایا کہ ہاں خدا کی ذات تو اس سے بھی بلند و بالا ہے۔
دیکھا آپ نے خدا کو آپ کی محبت بھری نگاہ جو ماں باپ کی طرف اٹھتی ہے کتنی پسند ہے؟
تو کیا خیال ہے کمانا ہے یہ ثواب ؟ تو پھر اب شروع ہوجائیں دیکھئے کہان ہیں آپ کی امیی اور ان کو زرا پیار سے دیکھئے اور وہ اس تبدیلی کی وجہ پوچھیں تو ان کو بتائے کہ آپ انہیں اتنے پیار سےت کیوں دیکھ رہے ہیں۔
مگر زرا رکئے!
جب غصے میں ہوں تو اس وقت اس حدیث کو ضرور یاد کیجئے گا! اور والدین کو غصے کے وقت غصہ بھری نگاہ سے مت دیکھئے گا اور چونکہ غصے کے وقت شیطان ہمارے اندر آجاتا ہے اس لئے وہ ضرور چاہے گا کہ ہم غلطی یکریں اور والدین کو غصے سے دیکھیں اس لئے اس غصے کی حالت میں اپنی عادت بنا لیں کہ نگاہ نیچی رکھیں اور والدین کی آنجکھوں میں آنکھ ڈال کر نہ دیکھیں ورنہ اللہ رسول اور ائمہ ّ ناراض ہونگے۔
بس محبت بھری نگاہ ڈالئے اور ثواب کمائیے
٧۔تحفے دیجئے!
کبھی کبھی اپنی پاکٹ منی سے اپنے والدین کے لئے کوئی تحفہ لائیے اور ان کو دیجئے یقین کیجئے شاید جو تحفہ آپ لائیں اس کی اہمیت آپ کے نزدیک کچھ نہ ہو مگر وہ آپ کے والدین کے لئے بہت قیمتی ہوگا کیونکہ وہ آپ لائے ہیں! ضروری نہیں کہ وہ ہزاروں یا لاکھوں کا یا چند سو کا ہو اگر وہ دس ،بیس یا پچاس روپے کا بھی ہوگا تو آپ کے والدین کے لئے کروڑوں سے زیادہ قیمتی ہوگا۔
جب آپ وہ تحفہ ان کو دیگے تو اس وقت ان کے چہرے پہ پھیلی روشنی اور نور اور آنکھوں کی چمک اور ہونٹوں کی مسکراہٹ! آپ کا مان اور آپ کے لائے تحفے کو دنیا کا سب سے قیمتی تحفہ بنا دے گی! ان کے الفاظ پہ مت جائیے گا کہ کیا ضروت تھی لانے کی! ان کے دل کا سکون اور لہجے کی نرمی اور آنکھوں کا پیار بھرا لمس آپ کو بتائے گا کہ یہ ضروری تھا اور بہت اہم اور قیمتی لمحہ ہے ان کی زندگی کا
تو بس اب سے پلاننگ شروع کر دیجئے کہ آپ نے اپنے ممی پاپا کو کیا تحفہ دینا ہے اور کب دینا ہے؟
بہت سارے موقع ہوسکتے ہیں ان کو تحفہ دینے کے مثلا
١۔ ان کی برتھ ڈے
٢۔ان کی شادی کی سالگرہ
٣۔ان کی صحت یابی
٤۔ان کا کسی دن بہت خوش ہونا
٥۔ کسی دن جب امی اچھا کھانا بنائیں
٦۔ جب ابو کو کام سے آکر تھکن سے برا حال ہو
٧۔جب چھٹی کا دن ہو
٨۔ جب امی ابو دونوں کہیں جانا ہو
٩۔جب امی یا بو کسی کام میں کامیابی ملے
١٠۔ جب آپ کا دل چاہے
١١۔ جب آپ پاس ہوں
١٢۔جب آپ کو اچھا گریڈ ملے
١٣۔ جب آپ کو جاب ملے
٤١۔ جب آپ ان سے خوش ہوں۔
٨۔اپنی اچھی عادتوں کو ان سے منسوب کریں!
جب آپ خود میں کوئی اچھی عادت دیکھیں تو ان کو اپنے والدین سے منسوب کریں اور اپنے والدین کو بتائیں کہ یہ عادتیں ان سے آپ نے لی ہیں اور آپ سے سیکھی ہیں۔
مثلا وقت کی پابندی، صبح سورے اٹھنا، دھیمے اور نرم لہجے میں بات کرنا، اچھے گریڈ لینا اور اچھا کھانا بنانا وغیرہ وغیرہ
اس طرح سے آپ کے والدین بھی خوش ہونگے کہ ان کی اچھی عاتیں آپ اپنا رہے ہیں اور ان کو اہم سمجھ رہے ہیں۔
٨۔۔ باتیں کیجئے
جب کبھی آپ فارغ ہوں اور کوئی کام نہ ہو فورا اپنے والدین کے پاس بیٹھ جائیں اور ان سے ان کی باتیں کیجئے۔ ان کے بچپن کی، ان کی بیماری، ان کی صحت کی، ان کے والدین کی ان کی شادی کی ان کی تعلیم اور ان کی گھریلو زندگی ان کی پسند ان کی نا پسن اور وہ سب جو آپ اپنے والدین کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔
٩۔ پڑھائی پہ توجہ دیجئے
اپنی پڑھائی پہ توجہ دیجئے یہ بات آپ کے والدین کو بہت اچھی لگے گی اور وہ آپ کے اچھے گریڈ سے اور آپ کے اچھے گریڈ سے جو سب سے زیادہ خوش ہوتا ہے وہ آپ کے والدین ہی تو ہیں!
آپ کے والدین آپ کے لئے ہی اتنی محنت تو کر رہے ہیں کہ آپ اچھا پڑھیں اور اچھا پڑھنا خود آپ کے لئے ہی بعد میں فائدہ مند ہے۔ اس لئے اپنی پڑھائی پہ توجہ دیجئے اور ہر طرح سے کوشش کیجئے کہ آپ کے نمبرز کم نہ ہوں اور آپ کے کم نمبرز دیکھ کے آپ کے والدین دکھی ہو جاتے ہیں تو کیا آپ اپنے والدین کو کھی دیکھنا چاہتے ہیں؟ تو پھر اپنی پڑھائی میں تیزی دکھائیں۔اور اچھے نمبرز سے اپنے والدین کو خوش کیجئے اے ون نمبر لاکر!
١٠۔والدین کے اصولوں کی پابندی کیجئے
ایک خاندان ایک ادارے کی طرح ہے. حقیقت میں خاندان برادری میں بنیادی ادارہ ہے. بس کسی بھی ادارے کی طرح، خاندانوں کو قوانین کی بھی ضرورت ہے. قوانین خاندان میں امن اور ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لئے خاندان کے ہر رکن کے لئے ہیں. خاندانوں کو قوانین کی ضرورت کیوں ہے؟
یہ گھر کے اصول اس لئے بنائے جاتے ہیں تا کہ
آپ کی اور آپ کے بہن بھائیوں کی حفاظت
آداب
ادب
روز مرہ کے معمولات
ایک دوسرے کے کس طرح.ساتھ کس طرح برتاؤ کرتے ہیں
جان لیں
اگر آپ کے والدین نے کوئی اصول بنآئیں ہیں اپنے گھر کے لئے تو ان اصولوں پہ کوشش کر کے سختی سے عمل کریں اور کوشش کریں کہ ان کے کسی اصؤل کو نہ توڑیں چاہے یہ آپ کے لئے کتنا ہی سخت کیوں نہ ہو۔
بے شک آپ کو یہ بہت برا محسوس ہوگا کہ آپ کے لئے کوئی اصول بنائیں جائیں لیکن جب آپ خؤد بڑے ہوں گے تو آپ کو احساس ہوگا کہ اصول کس قدر ضروری ہیں اور جو اصول آپ کے والدین نے بنائے تھے ان سے آپ کو کتےنا فائدہ ملا۔
آپ کے والدین کے بنائے ہوئے اصول گھر کے تمام ہی افراد کے فائدے کے لئے ہوتے ہیں اس لئے ان کا سب کو ہی خیال کرنا چاہئیے۔ مثلا رات گھر پہ دیر سے کوئی نہیں آئے گا، دوستوں کو گھر میں نہیں ٹھیرایا جائے گا، دوستوں کے گھر رات نہیں رکا جائے گا، یا سگریٹ اور مین پوری ٹائپ کی کسی چیز کو نہیں کھانا نماز باجماعت پڑھنا، لڑکیوں کو پردہ کرنا ہے،کسی بہن بھائی کو مارنا نہیں ہے
یہ سارے ہی اصول انصاف کے ساتھ سوچئے کہ آپ کے فائدے کے ہیں یا نہیں؟
اس لئے کوشش کیجئے کہ آپ کے والدین کا کوئی اصول نہ ٹوٹے ۔ اگر اصول والدین نے بنائے ہیں تو یہ ان کی خوشی ہوگی کہ آپ ان اصولوں کی پابندی کرتے ہیں۔
از قلم: شبیہ زہرا جعفری