twitter
rss

امام رئوف ع

نقش انما ہیں امام علی رضا ع
 تصویر ھل اتیٰ ہیں امام علی رضاع

جب تک رہے گا مکتب تدریس حق کھلا
تاثیر کل کفیٰ ہیں امام علی رضا ع

نائب یہ آٹھویں ہیں مسیحائے کائنات
 ہر دور کی دوا ہیں امام علی رضاع

تکفیر کی زبان پہ تالے لگا دیئے
ایمان کی صدا ہیں امام علی رضا ع

جو بھی خلوص دل سے اطاعت شعار ہیں
ان سب کے پیشوا ہیں امام علی رضا ع

والی ولی و شاہ خراسان و شاہ طوس
تزئین اولیا ہیں امام علی رضا ع

حاجت روائے خلق خدا ضامن نجات
فرزند مصطفیٰ  ہیں امام علی رضا ع

حاضر ہوں در پہ جو بھی جبیں سائی کیلئے
وہ جانتے ہیں کیا ہیں امام علی رضا ع

حاکم نے زہر دے کے کیا آپ کو شہید
مظلوم اشقیا ہیں امام علی رضا ع

ممتاز جن کے در پہ ہو مقبول ہر دعا
وہ حجت خدا ہیں امام علی رضا ع
شاعر : خلیق حسین ممتاز

میری کہانی

آج پڑوسی نے ایک جگہ کا بتایا ہے وہ کہ رہی تھی کہ ڈاکٹر بہت اچھا ہے چلیں؟‘‘۔’’
ہر ایک کے پیچھے چل پڑتی ہو پتہ نہیں کہاں کہاں خوار ہورہی ہو تم ‘‘۔میں نے اپنی بیوی کے کمزوری و نقاہت سے کانپتے’’
وجود کو دیکھتے ہوئے کہا۔
ماں ہوں نا اس لئے ۔  ۔ ۔ میرا دل کہتا ہے کہ یہ ٹھیک ہوجائے گا ‘‘۔ ’’
صالحہ بچے کو گود میں لے کر پیار کرنے لگی۔ یہ میرا آٹھ سالہ بیٹا تھا جس کو اللہ جانے کیا بیماری ہوئی تھی۔اس کے سر کے اور پلکوں کے بال جھڑ گئے اور سر و چہرے کی جلد زرد ہوگئی تھی۔ ہر کوئی اس کوئی اس بیماری پر عجیب سا احساس دلاتا تھا ۔میں ڈاکٹر کے چکر لگا چکا تھا مگر ڈھاک کے وہی دو پات صحت نے تو گویا اس سےمنہ موڑ لیا تھا اور ہم ماں باپ کا دل ہر لمحہ جھلستا رہتا تھا۔ڈاکٹر کی دوائی ، ڈاکٹر کی فیس اور گھر کے اخراجات اتنے تھے کہ میں تھکنے لگا تھا پینل سے نہیں بلکہ باہر سے دوا خریدنے لگا تاکہ اخراجات تنخواہ سے نہ کٹیں ۔انجیکشن کیلئے ضروری تھا کہ مستند ڈاکٹر ہی لگائے جس کی فیس تقریبا سات سو تومان تھے میں جو ایک کاریگر ہوں اس کو برداشت نہیں کرسکتا تھا۔
ایک دن میں نے دوائی کی پرچی ایک اپنے ساتھ کام کرنے والے آغا طالبی کو دی اس کوکہا کہ میرے بچے کیلئے دوا خرید لائے کچھ عرصہ گذر گیا یہاں تک کے ماہ رمضان آگیا اور حرم مطھر کی طرف سے خادمین اور ان کے گھر ولوں کیلئے افطاری کا انتظام ہوا حرم میں۔ میں اس افطار کی دعوت میں اپنے بیمار بیٹے کو بھی لے گیا۔
آغا طالبی نے جب بچے کو دیکھا تو ان کا دل بھی بجھ کر رہ گیا پھر پوچھنے لگے
کیا تم چاہتے ہو کہ تمہارے بچے کی دوا بتائوں؟ ‘‘۔’’
میں حیران رہ گیا اگر واقعی ان کو دوا پتہ تھی تو پہلے کیوں نہ بتائی میں نے جواب دیا ۔ 
ہاں  ۔ ۔ ۔کیوں نہیں؟ ‘‘۔’’
تم تو حرم مطھر کے اندر کام کرتے ہو جائو شفا بھی ان سے ہی لو۔‘‘۔’’
اس وقت میرا دل ٹوٹ گیا  ۔ ۔ ۔ دل گویا پھٹنے لگا تھا آنسو حلق میں اٹکنے لگے میں نے شرمندگی کے ساتھ بچے کو گود میں اٹھایا وضو کیا دورکعت نماز حرم مطھر میں پڑھی اور بی بی ع کے سامنے گڑگڑانے لگا۔
 بی بی معصومہ س اس بچے کو صحت دے دیں یا پھر موت۔اب اس کے بعد میں کسی بھی ڈاکٹر کے پاس نہیں لے کر جائوں ’’
اب میرے اندر طاقت نہیں کے اس زندہ لاش کا بوجھ ڈھو سکوں۔  ۔ ۔‘‘۔ 
میں شدت سے رو رہا تھا مجھے پتہ بھی نہ چلا کہ کیا ہوا کب ہوا کیسے ہوا مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اب تیرہ سال گذر گئے ہیں میں اس دن کے بعد اپنے بچے کو پھر کسی ڈاکٹر کے پاس لے کر نہیں گیا۔ میرا بیٹا بالکل ٹھیک ہے  اس کے سر و پلکوں کے بال قدرتی طور پر ٹھیک نکل آئے ہیں اور اس کو شفا کاملہ حاصل ہوگئی۔

منبع: عنوان كتاب؛ عنايات معصوميه از زبان خادمين آستانه مقدسه حضرت معصومه (س) -  نويسنده : محمد علي زيني وند


اصلی سردار کون؟
سردار کی اولاد ہی سردار ہوا کرتی ہے اس کی حمایت پورے قبیلہ کی طرف سے حمایت شمار ہوتی ہے ۔گویا قبیلہ کا سردار قبیلہ کی آواز ہوا کرتا ہے صرف مخالفین ہوتے ہیں جو دبی ہوئی آواز میں مخالفت ضرور کرتے ہیں مگر مقابلہ نہیں کرسکتے کیوں کہ جانتے ہیں کہ سردار جو فیصلہ کرتا ہے وہ قبیلہ کے حق میں ہوا کرتا ہے۔عمران بن عبدالمطلب جو کہ ابوطالب  یا ابی طالب کے نام سے مشہور ہیں قبیلہ بنی ہاشم کے سردار تھے اور  (وہ اور رسولﷺ کے والد حضرت عبداللہ ع ایک ہی پدر سے سے تھے) ۔ عمران  تھا مگر بڑے بیٹے کا نام طالب تھا اسی لئے ابوطالب مشہور ہیں والد کے انتقال کے بعد قبیلہ کی سرپرستی ابوطالب کے کاندھے پر آئی تو آپ نے رسولﷺ کی سرپرستی خود اپنے ہاتھ میں لی ۔ آپ پہلی شخصیت تھے جنہوں نے رسولﷺ کی حمایت اور مدد کا اعلان کیا بعثت کے بعد اور مشرکین مکہ کھل کر گھنائونی سازشیں کر رہے تھے اس وقت حضرت ابوطالب ع کی حمایت نے ان کیلئے زندگی تلخ کردی تھی روایات میں ملتا ہے جس وقت وہ رسولﷺ کو نہیں پاتے تھے تو مشرکیں مکہ کی گردنوں پر زندگی حرام کر دیتے تھے یہاں تک کہ رسولﷺ ان کو مل جاتے اور ان کے دل میں سکون و اطمینان آجاتا۔ یہ الھی حمایت ہی تھی جس کی بنائ پر مشرکین مکہ  بہت کوشش کے باوجود رسولﷺ کو تکلیف نہیں دے سکتے تھے مگر جانتے تھے کہ رسولﷺ ایک رحمۃ للعالمین رسول ہیں وہ اگر رسولﷺ کے دوستوں اور پیروکاروں کو اذیت دیں گے تو بلافاصلہ اس درد کا احساس رسولﷺ کے دل ہی میں محسوس ہوگا لھذا انھوں نے یہی طریقہ استعمال کیا . اس کے علاوہ طبری نے خود روایت کی ہے کہ قریش کے رئوسائ حمایت ابوطالب سے نہایت پریشان تھے وہ انھوں نے ملکر حضرت ابوطالب ع کے پاس آئے اور کہا:ھم عمارہ بن علید جو کہ سب سے خوبصورت، سخی ، شجاع ترین جوان ہے قریش کا لے کر آئے ہیں تاکہ اس کے بدلے میں آپ ہمیں اپنے بھائی کے بیٹے  جس کی وجہ سے قبیلہ میں اختلافات ہورہے ہیں اور عقائد خراب ہو رہے ہیں دشمنی کی فضا پیدا ہورہی ہے کو ہمیں دے دیں تاکہ ہم اس کو قتل کردیں۔ ابوطالب ع نے فرمایا:تم لوگوں نے انصاف نہیں کیا ہے میں تمہارے بیٹے کو جو تم دے رہےہو کھلائوں پلائوں اور میں اپنا بیٹا دو تاکہ تم اس کو قتل کردو؟انصاف تو یہ ہے کہ تم قریش والے ھر گھر سے ایک اپنے بیٹوں میں سے ایک بیٹا دو تاکہ میں انھیں قتل کروں ۔
پھر کچھ اشعار کہے جن کا مفہوم یہ ہے کہ:۔
 تم نہیں جانتے کہ ھم نے محمد ﷺ کو پیغمبر جانا جس طرح سے موسیٰ کوکیا  موسیٰ وہی پیغمبر نہیں ہیں جن کا نام آسمانی کتابوں میں آیا ہوا ہے؟مگر تم ہمیں نہیں پہچانتے ہواور نا ہی جانتے ہو کہ ھمارے والد ھاشم ، خود اس بچے کی حفاظت کیلئے آمادہ تھے اور جب وہ اس بچے کو نہ دیکھ سکے تو انھوں نے خود اپنی اولاد کو حفاظت اور تمہارے طعن و اذیتوں کے مقابل حفاظت کی وصیت کی تھی۔
اس کے علاوہ حضرت ابوطالب کے اشعار میں حضرت حمزہ کیلئے پیغام بھی ملتا ہے  وہ کہتے ہیں کہ
صبر کرنا اے اباعلی(حمزہ)دین احمد پر اوراس دین کی مدد اور اس کی حفاظت میں کوشش کرنا،خدا تمہیں توفیق دے کہ تم جو کہتے ہو میں ایمان لایا ہوں مجھے اس سے خوشی حاصل ہوئی لھذا اب پیغمبر خدا کی اللہ کی راہ میں مدد و نصرت کرنا۔ 
اس کے علاوہ جس وقت آپ ع اس دنیا سے تشریف لے جا رہے تھے اس وقت بھی وصیت فرمائی وہ وصیت بھی اشعار کی صورت میں تاریخ کے سینہ میں محفوظ ہے
میں وصیت کرتا ہوں اپنے بیٹوں علی ، عباس(شیخ القوم) ،شیر مدد کرنے والے حمزہ کو ، اور جعفر کو کہ پیغمبر نیک خصلت کی مدد کریں ان کی سخت حفاظت کریں اور میری ماں تم پر فدا ہو احمد کے لئے لوگوں کے سامنے سپر بن جائو۔
ایمان ابو طالب(ع) علامہ طبا طبائی (رہ) صفحہ ۲۔۴

حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا

حضرت فاطمہ معصومہ(س) امام موسیٰ الکاظم علیھم السلام کی دختر ہیں آپ کی شخصیت خاندان امام کاظم علیہ سلام برجستہ شخصیت تھی جنہوں نے جنہوں اپنے عصر میں بہت  بزرگ ہستی سے کسب فیض کیا۔
مولف مستدرک سفینۃ البحار  حضرت معصومہ (ص) کی تاریخ ولادت کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ
 فاطمہ المعصومہ المولدہ فی غرہ دی القعدہ سنۃ ۱۷۳ ۔
حضرت فاطمہ معصومہ اول ذیقعدہ ۱۷۳ ھجری میں اس دنیا میں ۔تشریف لائیں۔امام موسیٰ کاظم ع کی چار بیٹیاں تھیں جن کے نام فاطمہ رکھے گئے جناب معصومہ قم ان سب میں سب سے بڑی تھیں ان کی دوسری بہنوں کے نام فاطمہ صغریٰ،فاطمہ وسطی ، فاطمہ اخری ہیں۔
ماحولِ تربیت
حضرت فاطمہ س جس ماحول میں پرورش پائی جس میں ماں ، باپ ، بہن و بھائی اخلاق نبویﷺ سے آراستہ تھے۔عبادت وزھد ، پارسائی ،تقویٰ ، سچائی ، بردباری ، استقامت ناپسندیدہ حادثات کے مقابلے میں ،سخاوت ، پاکدامنی و رسولﷺ کی پاکیزہ صفات کی حامل تھیں۔اس خاندان کے سرپرست ایک برگزیدہ ، ملکوتی صفات کے حامل تھے اور اسی آغوش سے حضرت فاطمہ س نے پرورش پائی ۔
والدہ حضرت معصومہ س
جناب حمیدہ خاتون ع امام موسیٰ کاظم ع کی والدہ نے امام موسیٰ کاظم ع کیلئے امام باقرؑ کے مشورے سے ایک پاک سیرت زوجہ حضرت نجمہ خاتون ع امام صادق ع کے نکاح میں لائیں .حضرت حمیدہ خاتون ع ایک بابصیرت خاتون اور محدثہ تھیں احادیث جو آپ ع نے امام صادق ع سے سنی تھیں ان کی۔راوی ہیں۔ آپ ع کو پاکیزگی و طہارت کی وجہ سے طاھرہ کہا جاتا تھا۔حضرت حمیدہ خاتون امام صادق ع کے عصر کی خواتین کی استاد تھیں حمیدہ خاتون ع فرماتی ہیں کہ ایک دن جب حضرت نجمہ ع ہمارے گھر آئیں میں نے پیامبرﷺ کو خواب میں دیکھا کہ مجھ سے فرماتے ہیں کہ اے حمیدہ ! نجمہ کو اپنے پسر موسیٰ ع کو بخش دیں اور ان کی شادی کردیں  جلد ہی ایک بہترین فرد اس روی زمین پر متولد ہوگا 
میں نے اس حکم پر عمل کیا نجمہ کاعقد امام موسیٰ کاظم ع سے کردیا جن سے امام رضا ع اس دنیا میں تشریف لائے۔  
حضرت نجمہ خاتون ع پروردگار عالم کی مناجات و ذکر میں زیادہ متوجہ رہتی تھیں ولادت کے بعد جب رضاعت کے ایام میں آپ اپنی عبادت مثل سابق نہ کرسکیں تو آپ ع اھل خانہ سے تقاضہ کیا کہ ان کیلئے ایک دایہ کا انتظام کیا جائے۔ جب حضرت ع سے وجہ پوچھی گئی تو آپ ع نے فرمایا کہ 
اللہ کی قسم جھوٹ نہیں بولوں گی ۔ ۔ ۔ میرے ذکر نماز و تسبیح و عبادت میں کمی آگئی ہے
حضرت معصومہ س  درواقع بتول دوم  ہیں جو کہ جلوہ ہیں حضرت فاطمہ س دختر رسولﷺ کا اس قدر پاکیزہ صفات کی حامل تھیں کہ امام ھشتم  ع نے آپ کے نام کے ساتھ معصومہ کے لقب سے یاد فرمایا۔
آپ نے فرمایا: من زارالمعصومہ بقم کمن زارنی
جس نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی زیارت قم میں کی اسی طرح ہے جیسے اس نے میری زیارت کی۔
خاندان بالاعصمت نے جب امام صادق ع سے آپ کے بارے میں سنا تو ولادت کے منتظر تھے جس وقت آپ کی ولادت ہوئی اھل بیت عصمت و طہارت کے ساتھ ساتھ امام رضاع بھی بہت خوش تھے  کیوں کہ  یہ وہ آسمانی ستارہ تھیں جو امامت و ولایت کے آسمان پر طلوع ہوا تھا جس کے وجود سے حضرت زھرہ س کی بو آتی تھی تو رخ انور سے زندگی کی جلا ملتی تھی دل کو سکون و راحت۔ جس طرح رسولﷺ دیگر فرزندوں سے زیادہ صرف حضرت زھرہ س سے بہت شدید محبت کرتے تھے اسی طرح سے امام موسیٰ کاظم ع اپنی اس بیٹی پر بہت مہربان تھے دوسری بیٹیوں میں آپ کا زیادہ خیال رکھتے  سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ کیوں بیٹیوں کےدرمیان اتنا فرق؟ یہ امامت کے لحاظ سے کیا صحیح ہے؟ جی ہاں قرآن مجید کی آیات و پیغمبر اکرمﷺ کے اقوال اور آئمہ ع کی سیرت بتاتی ہے کہ انسان کی سب سے زیادہ عزت و احترام کی وجہ تقویٰ ہوتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا اپنی جدۃ فاطمہ سلام اللہ علیھا کی طرح علم ، کمالات ، اطاعت خداوندی میں سب پر سبقت رکھتی تھیں۔
جس وقت مامون نے امام رضاع کو خراسان(مشہد مقدس)بلایا تولوگوں کو جیسے ہی آپ ع کی آمد کا علم ہوا تو  ملاقات و مہمان بنانے کی خواہش میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرنے لگے۔ امام رضا ع نے(ان کی محبت کے پیش نظر) فرمایا: ان الناقہ مامورۃ
میرا یہ اونٹ مامور ہے جہاں یہ جائے گا وہی میری منزل  ہوگی۔
جس گھر میں آپ ع کے ناقہ نے قیام کیا اس کے صاحب خانہ نے گذشتہ رات ہی خواب دیکھا تھا کہ امام رضاع اس کے گھر مہما ن ہوئے ہیں اور  امام رضاع نے اس کے گھر میں قیام کیا  امام ع کی زیارت کی آج اس جگہ مدرسہ تعمیر کیا گیا جوکہ مدرسہ رضوی کے نام سے معروف ہے۔
امام رضا ع کے سفر کے ایک سال بعد سفر کا ارادہ کیا بہنوں اور خاندان کے ساتھ قم کی طرف سفر شروع کیا مگر حضرت فاطمہ صغریٰ و  خدیجہ خاتون اس دنیا سے رخصت ہوگئیں اور آشتیان کے نواحی گائوں  و   نزدیک مزار طیب و طاھر  مدفون ہوئیں۔شہر ساوہ سے گذرتے ہوئے آپ ع  جب قم میں وارد ہوئیں آپ اگاہ ہوئیں کہ امام رضا ع شہید ہوگئے ہین تو آپ ع اس صدمہ کو برداشت نہ کرسکیں اور چند ہی روز میں ۲۸ سال می عمر میں ۱۲ ربیع الثانی ۲۰۱ ہجری قمری میں شہید ہوگئین اور آپ کی قبر مقدس قم کے قلب میں واقع ہے جو کہ ہر لمحہ فیوض و برکات کا چشمہ ہے جس سے انسانیت سیراب ہورہی
ہے۔
اب ہم آخر میں اپنی بات کے اختتام کوان فیوض و برکات الھی جو روضہ مطھر پر ہیں ان میں سے ایک فیض کو نقل کر کے متبرک کریں گے:۔
آقائی مختار شعبانی  جو کہ حرم مطھر حضرت معصومہ ع قم کے خادمین و ذاکرین میں سے ہیں بتاتے ہیں  کہ میرا دوسالہ بچہ بیمار ہوگیا اس قدر کہ ایک رات مجھے اس کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا پڑا کیوں کہ بہت رات ہوچکی تھی اور ڈاکٹر کا ملنا مشکل تھا اور عین ممکن تھا کہ کلینک بند ہی ہوں میں نے اپنی بیوی سے کہا  کہ وہ بچے کو گرم کپڑے یا چادر میں لپیٹ دے تاکہ اس کو ٹھنڈک نہ لگ جائے میں اس کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ہوں تم نہیں جائو۔ بیوی نے زیادہ اصرار نہیں کیا اور بچہ کو چادر میں لپیٹ کر میرے ساتھ کردیا ۔ میں بجائے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے سیدھا حرم مطھر حضرت معصومہ ع لے گیا اور سرہانے کی طرف لٹا دیا اور بچے کے برابر میں لیٹ گیا اور حضرت معصومہ ع سے کہنے لگا : میں لے آیا ہوں اصلی ڈاکٹر تو آپ ہیں میرے بچے کو شفا عنایت فرمائیں !اگر شفا نہیں دی تو آپ کو اپ کے والد حضرت موسیٰ بن جعفر ع اور ٹوٹے ہوئے دل حضرت جواد الآئمہ ع  کا واسطہ   خدا سے دعا کریں کہ میرا اور میرے بچے کا جنازہ اس حرم سے باہر جائے۔
میں رونے لگا اور دعائوں میں مصروف ہوگیا چند لمحوں بعد میں نے کیا دیکھا کہ میرا بیمار بچہ اٹھا اور اپنے قدموں پر چلنے لگا میں بغیر کسی کو شفا کی  اطلاع دیئے بچے کو اٹھا کر گھر لے آیا میں جانتا تھا کہ اس کی ماں شدید بے چین و پریشان ہوگی اور منتظر ہوگی کب میں گھر واپس آئوں گا۔ گھرآکر میں نے بچہ اس کی ماں کی  گود میں دیتے ہوئے کہا:۔ یہ لو ڈاکٹر کے پاس سے لا رہا ہوں۔اس نے پوچھا : پھر دوا کہاں ہے؟
اس وقت میں مجبور ہوچکا تھا کہ اس سربستہ راز سے پردہ اٹھائوں میں نے پوری حقیقت بیان کی کہ میں بچے کو مادی ڈاکٹر کے بجائے روحانی ڈاکٹر کے پاس لے گیا تھا۔ انھوں نے عنایت فرمائی اور شفا کامل عطا کردی۔
میری بیوی رونے لگی گویا وہ بھی کسی راز کو بیان کرنا چاہتی تھی ۔ اسی وقت کہ جب تم گئے میں لیٹ گئی کیا دیکھتی ہوں کہ ایک خاتون کو دیکھا جو مجھ سے کہ رہی تھیں  اٹھو !تمھارا شوہر آرہا ہے ہم نے تمہارے بچے کو شفا دے دی ہے۔


عیون اخبارالرضا ج۱ ص ۱۵
مستدرک سفینہ البحار ج۸ ص ۲۵۷ 
اعلامالوریٰ ص ۳۰۲
 منبع: عنوان كتاب؛ عنايات معصوميه از زبان خادمين آستانه مقدسه حضرت معصومه (س) -  نويسنده : محمد علي زيني وند
استان مقدس حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا

دو حسرتیں
حسرتیں انسان کو ضمیر کی عدالت میں سزائیں دیتی ہیں اگر لوجک ہو تو پھر ساری زندگی اسی عدالت کے کٹھیرے میں کھڑے گذر جاتی ہے۔میری زندگی بھی ایسی ہی دو حسرتوں کی گرد میں اٹی ہوئی ہے جس سے نکلنے کی میری ہر کوشش ضمیر کی عدالت ناکام بنا دیتی ہے ۔ کسی سزائے موت کے قیدی کی طرح الہی انتقام  کا انتظار رہتا ہے جس سے دل ہرروز مرتا ہے۔
میری پہلی حسرت یہی ہے کہ میں نے موبائل کی زندگی میں قدم رکھا اور پھر خوشیاں روٹھ گئیں۔جس وقت میرے گھر میں موبائل آیا سب سے پہلے ابو جان نے اس کا استعمال شروع کیا۔ مجھے یاد ہے پہلی بار جب فون کی گھنٹی بجی تھی تب دادی نے رات کے کھانے میں ہم سے کہا
بچوں آج اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آگیا ہے سننا چاہو توہم سنائیں کھانے کے بعد؟
ہم سب نے کھانا جلدی جلدی کھا کر ڈرائنگ روم کا رخ کیا جہاں پر دادی اماں پاندان لئے بیٹھی تھیں ابو جان بھی وہیں تھے
بیٹا جب پہلی بار فون لگا تو  ہم سب بہت خوش تھے محلے میں کسی کے گھر فون نہ تھا اب محلے والے ہمارے گھر آنے جانے لگے تھے محلے میں مولوی صاحب بھی رہتے تھے ایک بار ان کے بیٹے کا فون آیا آفس سے ان کی بیوی اور چھوٹی بیٹی سننے آئے ۔ جب بات کرلی تو بچی بری طرح رونے لگی چپ کرائے چپ نہ ہوتی تھی۔ گھر کے ہر فرد نے کوشش کرلی مگر بچی چپ ہونے کا نام نہ لیتی تھی تمہارے ابا میاں میرا مطلب ہے تم لوگوں کےدادا ابا اس دن جلدی آگئے تو بچی کو روتے دیکھ کر حیران رہ گئے۔ بچی کو باہر لے گئے کچھ دیر بہلا کر واپس لائے تو اس کی ماں نے پوچھا: شہزادی تو کیوں روئی تو بچی نے  دوبارہ رونا شروع کردیا۔
دادی آخر بچی کو کیا ہوا تھا؟ میں نے سپنس کو ختم کروانے کی کوشش کی۔
شاہد میاں! بچی رو رو کہنے لگی ارے میرا بھیا اس موئے فون میں قید ہے اس کو باہر نکالو۔  ۔ ۔ ارے مر جائے گا
دادی کی بات سن کر سب ہنسنے لگے ۔یہ فون کی ابتدائ تھی اور اب ہمارے گھر موبائل کی ابتدائ ہوئی تھی دھیرے دھیرے موبائل ابو کے بعد دادی پھر امی پھر گھر کے ہر فرد کے ہاتھ میں آگیا۔ دادی چڑتی تھیں 
سجاد میاں! ہمیں اس کا قیدی مت بنائو۔ ارے ہم اکیلے رہ جائیں گے 
اور وہی ہوا اس موبائل کی دنیا میں جب سے قدم آیا سب نے گھر سے نکلنے کے بجائے موبائل پر ہی اکتفا کر لیا۔مرنا جینا ، سکھ ، دکھ سب اب موبائل پر ہی ہوتا ہے۔اگر کوئی گھر کے فرسٹ فلور پر ہے تو مس کال کی جاتی ہے نیچے بلانے کیلئے اگر کوئی چھپ پر پڑھ رہا ہے تو اس کو ایس ایم ایس کیا جاتا ہے نیچے آجائو تمہاری دوست آئی ہیں کمبائن اسٹیڈی کرنے کیلئے۔دوسری حسرت ہے گھروالوں سے دوری
اس موبائل کی وجہ سے ہم ایک دوسرے سے دورہو گئے ہیں ہر خبر بجلی کی سی تیزی کے ساتھ ایک کان سے پچاس کانوں میں چلی جاتی ہے ۔ اب تو فون میں ریکارڈنگ سسٹم بھی ہے جس کی وجہ سے ثبوت بھی لگے ہاتھ پہنچا دیا جاتا ہے۔ اگر ویڈیو میں ثبوت ہو تو الاماشائ اللہ
قرآن مجید میں ہے کہ اگر فاسق خبرلائے تو تصدیق کرلو ، مومن کو کہا ہے کہ اس کی بات پر یقین کرلو۔
اس موبائل کی وجہ سے مومن منافق نظر آتا ہے اور فاسق مع ثبوت کے مومن کامل
احادیث میں ہے کہ اگر کسی مومن کی بات سنو تو اس کی تاویل کرو اپنے ذہن میں خود ہی بہانے ڈھونڈو شاید غلط فہمی ہوگئی یا پھر سننے میں غلطی ہوئی ، شاید دیکھا غلط ہوگا۔ موبائل اور اس کے آئے دن آنے والے ورژن نے ان کو تقریبا ختم کردیا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مخالف سے اپنی مطلوبہ بات اس کی زبان پر لانے کیلئے لوگ ڈرامہ کرتے ہیں اور اسی ڈرامہ کو ہتھیار بنا کر ایک مومن پر الزام و تہمت لگا دیتے ہیں جس کو ایک مومن ثابت کبھی نہیں کرپاتا اور یوں وہ یا تو منافق قرار پاتا ہے یا پھر کچھ اور تہمت لگ جاتی ہے۔
آج یہی ہورہا ہے لوگ اپنے گھر والوں سے دور الگ ہوتے ہیں دوسرے فون پر ہی خیریت دریافت کرکے سمجھتے ہیں ذمہ داری ختم ہوگئی ۔ جب موبائل فون نہیں تھا اس وقت ہم لوگ اپنے بزرگوں کے پہلو سے لگے رہتے تھے جتنی بھی گھر میں ناچاقی ہو مگر بزرگوں کی مداخلت اور ان کے فیصلے ہمارے لئے باران رحمت ہوتے تھے مگر اب چوں کہ ثبوت کا سلسلہ ہے اس لئے بزرگ نہ عملی طور پربچوں کی زندگیوں میں داخل ہیں نہ ہی وہ گمان پر بچوں کی زندگیوں کو بچا سکتے ہیں آنے والے طوفانوں سے۔میری یہی حسرتیں ہیں کاش موبائل نہ ہوتا اور نہ ہم بزرگوں سے دور ہوتے ترقی آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے ناکہ اپنی کشتیاں جلا کر ان پر محل تعمیر کرنے کا۔

آزادی صحافت

کسی بھی ملک کا میڈیا اس ملک کی بڑی طاقت شمار ہوتا ہے اسی لئے ممالک اپنے میڈیا کو قابو میں رکھتے ہیں یا پھر یوں کہ لیں کہ کسی بھی ملک کا میڈیا  ملک کی قومی گائے ہے جس کا دودھ ، گوشت ، ہڈیاں ، کھال حتیٰ کہ اس کے کھر ، دم وغیرہ بھی بڑی کام کی چیز ہیں اس لئے اس کی حفاظت کرنا فرض ہوتا ہے۔
چلیں ہم سروے کر لیتے ہیں عرب ممالک میں میڈیا کی زبان سرکاری دفاتر سے چلتی ہے ذرا بھی آپ نے نعوذ بللہ اسرائیل کے خلاف دماغ میں بھی سوچا تو عربی زبان سے میڈیا آپ کا ٹرائل کرے گا اور پھر آپ کافر بن سکتے ہیں۔ کافر بن کر آپ سوچیں گے کہ نہیں بھی میرے حصے کی کوئی روٹی تھوڑی کھا رہا ہے ہزار بار کافر کہ لو ۔ ۔ ۔ نہ جی نا
پھر اقوام متحدہ کی افواج آپ کے دروازے پر آئیں گین اور اس جرم کی کڑی سزا ملے گی کیوں کہ اسرائیل کے خلاف بول کر آپ نے گناہ کیا تھا اب اسلام کی رکھوالی افواج آپ کو چھوڑیں گی تھوڑی۔ ۔  ۔
خیر میڈیا کے بعد نمبر آتا ہے صحافت کا اس کے بہت سے اصول ہیں
نمبر ایک اصول ہے : پیشے سے عشق کی چھٹی:۔ اگر آپ نے سوچا میں تیس مار خان نہیں بنوں گا بلکہ صحافت کو اس کی معراج پر لے جائوں گا سمجھ لیں آپ کی زندگی کی الٹی گنتی شروع ہوگئی ۔ جی ٹی وی کا اونر ہو یا نیوز پیپر کا ایڈیٹر ہر ایک آپ کو ایک کاغذ کا صفحہ پکڑا کر دروازے سے باہر کھڑا کردیں گے پھر آپ ہوں گے اور ایک ہاتھ میں سی وی پھر راتوں کو دعائیں کریں گے یا اللہ صحافت کو معراج دینے کا فیصلہ میں واپس لیتا ہوں ایڈیٹر کے دل میں سوراخ کرکے میرے لئے رحم پیدا کردے۔
لباس:۔ صحافی کیلئے ضروری ہے کہ اس کا میک اپ اچھا ہو، ڈریس جیسا بھی ہو مگر تھوڑا سا اگر مرد ہیں تو انگریزی لک آنا چاہئے اگر خاتون ہیں تو پھر بی بی سی کی خاتون اینکرز کے لباس جیسا لباس ہو مگر پاکستان کے موسم  میں ڈھلا ہوا ورنہ پھر پرچہ ہاتھ میں مل جانے کا خوف ہے۔ اس کیلئے اچھا یہ ہے کہ لائٹ ہائوس یا پھر ایل ایل بی مارکیٹ اچھی ہے وہاں کا دورہ کم از کم ماہ میں ۱۰ بار ضرور کریں یقینا تھوڑا سا ٹیلر کو کھلا کر آپ چند روپوں میں ایک اچھا سا انگریزی ڈریس حاصل کرسکیں گیں۔
اداکاری و فنکاری آنا:۔ضروی ہے آپ ایک اداکار ہوں ورنہ آپ کی یہ والی قسط بری طرح رینک انگ لسٹ سے خارج ہوکر ڈسٹ بن میں دیکھنے والوں کی چلی جائے گی۔ اداکاری کیلئے ضروری ہے کہ آپ کو چونکنا آتا ہو،طنزیہ مسکراہٹ آپ کا کھلونا ہو۔پریشان بننا ، پریشان لگنا یا پھر پریشان کرنے والا نظر آنا ضروری ہے اس کیلئے کسی ڈرامہ انسٹیٹیوٹ جوائن کرنا ضروری نہیں ہے آپ بڑے بڑے فنکار صحافیوں سے سیکھ سکتے ہیں۔ جو کہتے ہیں ہم تو قسمت کا لکھا پڑھ سکتے ہیں اور پڑھ کر سناتے بھی ہیں مگر عوام سادہ کو پتہ نہیں ہوتا وہ کاغذ سے پڑھ رہے ہیں یا پھر کہیں اور سے
تقریر کا ہنر: تقریر کا ہنر آنا ضروری ہے ورنہ اس طرح ہوجائے گا جیسے بارش میں گٹر کا بھر جانا (بارش سے انجوائے نہ کرسکیں اور گھر واپسی میں گٹر میں گر جائیں)تقریر کا ہنر آتا ہوگا تو مہمانوں کو ٹریٹ کر سکیں گے اگر کسی نے ذرا بھی سچ بولنے کی کوشش کی بات کو یوں گھمالیں جیسے پروگرام کرتے وقت چائے کا کپ گھماتے ہیں ۔
تقریر کا فن آتا ہوگا تو آپ کو سمجھ آئے گا کس طرح سے آپ غلط کو صحیح کریں گے اس کیلئے پھر کسی جگہ زانوئے ادب تہہ کرنے کی ضرورت نہیں ہمارے پیارے عامر لیاقت ڈاکٹر صاحب ہیں نا ان کے رمضان ٹرانسمیشن دیکھ لیں انعام گھر کی۔ خصوصا جب وہ گاڑی کیلئے سوال کرتے ہیں تو سوال ایسے کرتے ہیں گویا سامنے والے کو پزل کر رہےہوں  ۔ ۔ ۔ جبکہ وہ کنفیوز ہوکر سوال ایسے کرتے ہیں کہ جواب اسی میں ہوتا ہے پھر اپنے مخاطب کو گھما دیتے ہیں پھر ڈس کوالی فائی کرکے ایک فرج پکڑا کے اللہ حافظ(ارے آپ مت جائیے گا ابھی تو پوری فلم باقی ہے)۔
صحافی بننے کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ
ڈانٹ پھٹکار کرنا سیکھیں:۔مخاطب کو ایسے رگیدیں گویا اس کی گدی پر ایک ہاتھ دے مارا ہو۔ اس طرح پرجوش کام سے آپ کی ریٹنگ بڑھے گی (مگر ایک کام پہلے کر لیں اپنے مہمان سے مک مکا کرلیں تاکہ جب واپس گھر جانا ہو تو سیکیورٹی گارڈ کی درخواست تھانے میں نہ جمع کروانی پڑے)۔
مطالعہ سے اجتناب:۔مطالعہ کرنا فضول ہوگا اس لئے دھیان دیں مخاطب کی بات سے بات نکالیں( اوپر ذکر کئے گئے گر ساتھ ملا کر )اس طرح بات کریں گویا آپ کو سب پہلے سے پتہ تھا۔کتاب و اخبار کا مطالعہ کریں گے تو حقائق پھر پرچہ ہاتھ میں پر سی وی پھر نماز میں توبہ ۔ ۔ ۔ لھذا اس کام سے اجتناب برتیں
ہاں اگر مہمان میں کسی ایک پارٹی کے حق مین بات کرنا ہو تو پوری تیاری کے ساتھ آئیں پوائنٹس بنا کر تاکہ مخالف مہمان منہ کھولے تو منہ کی کھاتا جائے(اس وقت وقفہ میں سوری کرنا مت بھولئے گا یہ بات تعویذ بنا لیں )۔
اسٹیشنری کا استعمال:۔ سب جانتے ہیں اسٹیشنری کتنی مہنگی ہے آخر کب تک آپ خریدتے رہیں گے؟ اس کا آسان سا حل یہ ہے کہ اسٹیشنری کا استعمال کریں مگر اپنی نہیں مہمانون کی یا پھر ڈائریکٹر کی مگر اپنی نہیں ۔ممکن ہے وہ سمجھ لیں آپ کی پالیسی تو پریشان نہ ہوں بلکہ جس وقت ریکارڈنگ شروع ہونے لگے تو کہ دیں یار ذرا پین تو دینا یا پھر یار ذرا پنسل دینا اور ایک سادہ کاغذ۔ ڈائریکٹر کو آگ لگتی لگے آپ کا تو کام ہوگیا نا۔  ۔ ۔
اب آتے ہیں اصل زندگی کی طرف یہاں بھی ایسے رہیں کہ سب کوپتہ چلے آپ معمولی چیز نہیں ہیں بلکہ اینکر ہیں میڈیا پرسنالٹی ہیں ۔ جی اب آپ پوچھین گے وہ کیسے؟ ارے بتاتے ہیں بتا ہی رہے ہیں (جلد بازی وہ واحد چیز ہے جس سے پرہیز کرنا ضروری ہے سیڑھی بنائیں دوسروں کے کاندھے مگر جلدبازی نہ کریں ورنہ وہ سمجھ لیں گے آپ کی پالیسی جس سے نقصان آپ کو ہی ہوگا۔)۔
اپنی گاڑی پر ایک اسٹیکر چپکائیں پریس کا ۔اور اب آپ کی گاڑی اور ایمولینس میں کوئی فرق نہیں رہا ۔ جتنی مرضی ٹریفک سگنل توڑیں ،پولیس کو تھپڑ مارلیں آپ ان کے ری ایکشن کو آزادی صحافت پرحملہ قرار دے سکتے ہیں ،اگر چالان ہو تو ایک کارڈ پر لکھ کر احتجاج سڑک پر بیٹھ جائیں پوری برادری ساتھ دینے آجائے گی پھر بے چارہ پولیس والا یا تو معطل ہوجائے گا یا پھر معافی مانگے گا پوری میڈیا کے سامنے۔آپ جس چینل پر ہیں وہاں تو یہ خبر بریکنگ نیوز بن کر چلے گی اس لئے کوئی غم نہیں۔
خفیہ رپورٹ:۔اگر آپ کو کوئی اہم کام ہو کسی ادارے میں یا شخصیت سے توپہلے انٹرویو کے بہانے ان سے بات کریں اور ان کا انٹرویو چینل پر چلانے کا وعدہ کرلیں۔ اگر انٹرویو والا پوئنٹ کام نہ چلے تو ایک خفیہ رپورٹ بنا لیں (چاہے ان ان کے کالے کاموں کی ہو یا میرٹ کی یا پھر جعلی ڈگری کی)پھر اس کو میڈیا میں لے آئیں اس طرح میڈیا کا موسم بھی بدلے گا ساتھ میں آپ کا کام بھی ہوجائے گا۔
مگر ایک بات کا خیال رہے کبھی بھی اپنے خلاف ثبوت نہ چھوڑیں ورنہ جھٹکا آپ کو ہی لگے گا بلفرض اگر ایسا ہو ہی جائے تو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں سینہ چوڑا کرکے کہیں یہ آزادی صحافت کے خلاف اعلان جنگ ہوئی ہے تو میں میڈیا کا سبپہ سالار ہوں پیچھے نہیں ہٹوں گا بس اب آپ صحافی کم صحافت کے علمبردار بن جائیں گے اگر زیادہ میڈیا میں ان ہوگئے تو آپ کے سیاست میں آنے کا چانس بن سکتا ہے۔  

حضرت حمزہ سید الشہدائ
حضرت حمزہ بن عبدالمطلب علیہ السلام رسولﷺ کے ہم عمر و چچا ہیں آپﷺ کی ولادت سے دو سال قبل اس دنیا میں تشریف لائے۔قریش میں سب سے بڑے دلاور ، برجستہ ، دوراندیش ، آزادمنش و بہترین شمشیرزن تھے جن کا کوئی مقابلہ کرنے کی تاب نہیں لاسکتا تھا۔جس وقت پورا عرب رسولﷺ کا شدید دشمن بنا ہوا تھا اس وقت  حضرت ابوطالب علیہ السلام کےساتھ ساتھ حضرت حمزہ کی حمایت نے مشرکان کے دلوں کو لرزایا ہوا تھا تو مومنین کے دلوں پر سے لطف الھی تھےیہی وجہ تھی کہ مشرکین اپنے کینے سے بھرے وجود کے باوجود رسولﷺ کی بارگاہ میں جرئت نہیں کرسکتے تھے۔ رسولﷺنے ہمیشہ آپ پربھروسہ کیا اور اس کی مثال ہمیں حضرت حمزہ ع کی زندگی سے ملتی ہے۔آج اس وقت کہ امن ایک گمنام و نایاب شے بنا ہوا ہے حضرت حمزہ کی زندگی کی حکیمانہ و دلیرانہ رفتار حوصلہ دیتی ہیں کیوں کہ یہ ان حالات کا جزوی حصہ بھی نہیں جو قبل از اسلام تھے۔ روایات میں ہے کہ ایک بار جب حضرت حمزہ ع کہیں سے واپس آرہے تھے تو ایک کنیز نے سر راہ ان کا راستہ روک کر اطلاع دی کہ آپ کے بھتیجے کے ساتھ بہت برا سلوک ہوا ابوجہل نے ان کے سر پر نجاست ڈال دی ہے حضرت حمزہ ع نے تلوار نکالی رسولﷺ کو ساتھ لیا اور ابوجہل کے پاس آئے اور ان کے ساتھ مسجد الحرام کے پاس پہنچے جہاں ابوجہل بیٹھا ہوا تھا حضرت حمزہ ع نے بری طرح ابوجہل کو مارا اور رسولﷺ کی دلجوئی کی ۔رسولﷺ نے الھی و پرفیض حکومت کے استحکام و  مضبوطی کیلئے حضرت حمزہ اور چند مجاہدین کو مدینہ کے دفاع کو مضبوط بنانے کی ذمہ داری دی۔ اس کے علاوہ ربیع الاول سال دوم ہجری میں رسولﷺ نے جب ابوائ ، ذات العشیرہ اور غزوہ بنی قینقاع کا جب قصد کیا تو ان غزوات کےعلمدار حضرت حمزہ تھے اسی پرچم تلے مسلمانوں نے ہر جنگ کو جیتا۔ جنگ بدر کے ایک سال  بعد جب غزوہ احد کیلئے مشرکان مکہ اپنی طاقت جمع کرکے نکلے تو حضرت حمزہ دیگر مسلمانوں کے ساتھ اسلحہ بدن پر سجا کر بارگاہ رسالت مآب میں آئے اور اس طرح گفتگو کی
 اس کی قسم جس نے آپ کو قرآن کے ساتھ بھیجا ہے آج ہاتھ غذا کو نہیں چھوئوں گا مگر یہ کہ مدینہ سے باہر جائوں اور
دشمن پراپنی تلوار اٹھائوں۔ ۔  ۔
حضرت حمزہ ؑ وہ شجاع و جنگجو ہیں جو اپنے دشمن و دوست کو پہچانتے تھے خود کو دشمن کی صفوں میں پہنچاتے اور  اپنے قوت بازوو خون  سے اسلام کی آبیاری کیا کرتےاسی لئےمشرکین مکہ ان کے وجود سے خوف کھاتے تھے کوشش کرتے تھے کہ وہ شہید ہوجائی  تاکہ وہ نومولود اسلام کی کمر پر کاری ضرب لگا سکیں احد کے میدان میں حضرت حمزہ دو تلواروں کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے فرماتے تھے میں اللہ کا شیر ہوں۔
  یہ شیر اور مرد شجاع ، دلیر،وفادار یا وفا کا پیکر ، ثابت قدم اور آسمان محافظین رسولﷺ کے سورج کو جنگ احد میں گہنا گیا مشرکین کی صفوں میں جب آپ اسلام کی جاں فشانی سے مدد کر رہے تھے اس وقت وحشی نامی غلام نے اس طرح سے نیزہ مارا کہ آپ اس کے اثر سے شہادت پر فائز ہوئے۔
رسولﷺ نے آپ کے بارے میں فرمایا:اللہ کے نزدیک قیامت کے دن شہیدوں کے سردار حضرت حمزہ ہیں
 آپ کا روضہ میدان احد میں ہے جہان پر مومنین ، عارفین ، مجاہدین اور وفاشعار،عاشقان رسولﷺ درس عشق خدا و رسولﷺ پڑھتے ہیں۔
 حوالہ : ماهنامه كوثر شماره 11


میرے سوال
میں نے پوچھا یہ بتائو کہ  یہ بدکردار لوگ کیوں خوبصورت ہوتے ہیں؟
کیوں جو لڑکیاں اچھی نہیں ہوتی ہیں وہ خوبصورت ہوتی ہیں؟
کیوں جو لوگ نشہ کرتے ہیں ، سگریٹ پیتے ہیں وہ بہت خوش رہتے ہیں
کیوں جو دوسروں کا مذاق اڑاتے ہیں وہ اچھی زندگی گذارتے ہیں؟
کیوں جو خیانت و دھوکہ دیتے ہیں وہ تہمت لگاتے ہیں ، غیبت کرتے ہیں ، جھوٹ بولتے ہیں پھر بھی کامیاب ہیں؟؟
کیوں وہی ہمیشہ بہتر ہوتے ہیں سب سے؟
اس نے پوچھا:۔  ۔ ۔ ۔ ۔میرے سامنے یا لوگوں کے سامنے؟

پھر میں نے کچھ نہیں کہا۔
مرسلہ:زینب

....................                                                          
 تاریخ کے آئینہ میں14 اگست
جاپان میں پہلا برائت جاری کیا گیا
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام (برطانیہ سے آزادی و دولت مشترکہ میں شمولیت)۔
ریڈیو پاکستان کراچی کا قیام
انیس و تہتر کے آئیں کا نفاذ
ذوالفقار علی بھٹو نے وزیراعظم اور فضل الہی چوہدری نے صدارت کاحلف اٹھایا
بحرین نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی 
مصر ، عراق ، اردن ، کویت اور شام نے مشترکہ معاشی منڈی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا
معروف صحافی آغا شورش کاشمیری امرتسر میں پیدا ہوئے
 سندہ مدرسۃالاسلام کے بانی حسن علی آفندی کا یوم پیدائش
مرسلہ:عمار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                      
کمپنی نے کوکا کولا کے مضر اثرات کے بارے میں آرٹیکل لکھا ہے  جس میں کوکاThe Renegade pharmacist
کولا کے مضر اثرات بیان کئے گئے ہیں۔
پہلے دس منٹ
چائے کے چمچ چینی آپ کے جسمانی نظام پر براہ راست اثر انداز ہوگی۔
پہلے بیس منٹ
کوکا کولا پینے کے پہلے بیس منٹ بعد خون میں موجود شوگر کی سطح میں اضافہ ہوگا جسم میں موجود انسولین کی خاص مقدار متاثر ہوگی۔اور جگر موجودہ شوگر کو اضافی چربی میں تبدیل کرنا شروع کردے گا۔
پہلے چالیس منٹ
کیفین آپ کے خون میں مکمل شامل ہوجائے گابلڈ پریشر و شوگر میں اضافہ ہوگا اضافی شوگر سے جگر کے نظام میں بیقائدگی شروع ہوجاتی ہے۔ دماغ کو ملنے والے سگنلز میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
پہلے پینتالیس منٹ
جس میں موجود کیمیکل بننے میں اضافہ ہوجاتا ہے اس کا تعلق دماغ و اس کی نشوونما سے ہے۔ Dopamine
پہلے ساٹھ منٹ
فاسفورک ایسڈ سے زیریں آنتوں میں کیلشیم ، میگنیشیم اور زنک اکھٹا ہوجاتا ہے۔آپ کے پیشاب کے ساتھ اضافی کیلشیم بھی جسم سے خارج ہوجائے گا۔
پہلے ساٹھ منٹ کے بعد
کوکا کولا پینے کے ایک گھنٹہ کے بعد پیشاب کے ذریعے آپ کے جسم سے میگنیشیم ، زنک ، سوڈیم ، پانی و الیکٹرولائٹ کی وہ مقدار بھی جسم سے باھر نکل جاتی ہے جس کی جسم کو زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                                                                                          
احادیث امام صادقؑ
۱۔
من احب للہ و ابغض للہ و اعطی للہ فھو ممن کمل ایمانہ
جو بھی خدا کی خاطر دوست رکھے ، اللہ کیلئے دشمنی کرے اور اللہ کی خاطر عطا کرے وہ اھل ایمان میں سے ہے۔ 
اصول کافی ج۳ ص ۱۸۹
۲۔
جعل الخیر فی بیت و جعل مفتاحہ الزھد فی الدنیا
تمام خیر کو ایک جگہ مقفل کردیا جائے تو اس کی چابی زھد و دنیا سے بے رغبتی ہوگی
اصول کافی ج ۳ ص ۱۹۴
۳۔
کان امیرالمومنین ؑ یقول :افضل العبادۃ العفاف
جناب امیرالمومنین ؑ نے فرمایا :بہترین عبادت عفت ہے۔
اصول کافی ج ۳ ص 125
۴۔
لا تکرھوا الی انفسکم العبادۃ
اپنی عبادت سے کراہیت نہ کرو(عبادت کو برا نہ سمجھو) ۔
۵۔
ثلاث من علامات المومن :علمہ باللہ و من یحب و من یبغض
تین چیزیں مومن کی علامت ہیں اللہ کی شناخت ، اسکے دوستوں کی شناخت اور اسکے دشمن کی پہچان
اصول کافی ج۳ ص۱۴۶
مرسلہ:شبانہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                                                                               
مختصرتعارت امام صادق ع
نام:جعفر(نھر پر فائدہ)۔
کنیت: ابوعبداللہ ، لقب: صادق
پدر: حضرت محمد بن علی ع
والدہ: معروف بہ ام فروہ ، دختر قسم بن محمد بن ابی بکر
تاریخ ولادت: اتوار ۱۷ ربیع الاول ، سال ۸۳ ھجری
مکان ولادت : مدینہ ، مدت عمر :۶۵ سال
شہادت کی وجہ : شدید زھر  ، قاتل: منصور دوانیقی(خلیفہ عباسی)۔
شہادت کی تاریخ :اتوار ، ۲۵شوال ، سال۱۴۸ ھجری
 مدفن: قبرستان بقیع ،مدینہ المنورہ اپنے والد امام محمد باقر ؑ ،و اجداد  امام علی بن الحسین ؑ  ،  امام حسن مجتبیٰ 
مرسلہ: زاھدہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                   
ٹائم مشین
اکثر لوگ ٹائم مشین کی بات کرتے ہیں کاش وہ وقت آجائے ، کاش ہم اس وقت یہ کام کر لیتے  ، کاش ہم یہ کام نہ کرتے وغیرہ وغیرہ وہ بھول جاتے ہیں اللہ نے ٹائم مشین ہر انسان کو دی ہےمگر استعمال کرنا کسی کسی کو آتا ہے۔ انسانی ذھن میں خاصیتیں بہت ہیں ابھی آپ سوچین پچھلے سال اگست کی ۱۴ کو ہم نے کیا مزے کا کھانا پکایا تھا تو وہ کھانا اور اس کا ٹیسٹ ذھن میں آجائے گا یہ وقت نہیں لایا مگر اس وقت کی خصوصیات کو ذھن میں لے آیا  اسی طرح اگر لگتا ہے کوئی بات تھی جو اس وقت نہیں ہونی چاہیے تھی اس کا حل بھی اللہ نے دیا ہے  وہ ہے توبہ۔ جیسے ہی لگے ہم نے غلط کیا یا پھر بات کو ہمیں صیحح جیسے کرنی تھی ہم نہیں کر سکے تو پریشان نہ ہوں وضو کریں جائ نماز پر بیٹھیں اور دو رکعت نماز توبہ دل سے پڑھ کر معافی مانگ لیں وہ ناصرف معاف کرے گا بلکہ ایسے مواقع فراھم کرے گا آپ اپنی غلطی کا جبران کر سکیں  گے۔ اس سے اچھااریزر آپ کہیں سے نہیں ڈھونڈ سکتے  اور نہ ہی ایڈیٹ کرنے کا اپنی زندگی کوئی سافٹ وئیر۔
مرسلہ:شکفتہ حیدر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                                                
امام رضا ع نے فرمایا:۔
ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق چاہے تھوڑی مقدار ہی میں کیوں نہ ہواپنے اھل خانہ کیلئے خرچ کرے۔
                           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔