آزادی صحافت
کسی بھی ملک کا میڈیا اس ملک کی بڑی طاقت شمار ہوتا ہے اسی لئے ممالک اپنے میڈیا کو قابو میں رکھتے ہیں یا پھر یوں کہ لیں کہ کسی بھی ملک کا میڈیا ملک کی قومی گائے ہے جس کا دودھ ، گوشت ، ہڈیاں ، کھال حتیٰ کہ اس کے کھر ، دم وغیرہ بھی بڑی کام کی چیز ہیں اس لئے اس کی حفاظت کرنا فرض ہوتا ہے۔
چلیں ہم سروے کر لیتے ہیں عرب ممالک میں میڈیا کی زبان سرکاری دفاتر سے چلتی ہے ذرا بھی آپ نے نعوذ بللہ اسرائیل کے خلاف دماغ میں بھی سوچا تو عربی زبان سے میڈیا آپ کا ٹرائل کرے گا اور پھر آپ کافر بن سکتے ہیں۔ کافر بن کر آپ سوچیں گے کہ نہیں بھی میرے حصے کی کوئی روٹی تھوڑی کھا رہا ہے ہزار بار کافر کہ لو ۔ ۔ ۔ نہ جی نا
پھر اقوام متحدہ کی افواج آپ کے دروازے پر آئیں گین اور اس جرم کی کڑی سزا ملے گی کیوں کہ اسرائیل کے خلاف بول کر آپ نے گناہ کیا تھا اب اسلام کی رکھوالی افواج آپ کو چھوڑیں گی تھوڑی۔ ۔ ۔
خیر میڈیا کے بعد نمبر آتا ہے صحافت کا اس کے بہت سے اصول ہیں
نمبر ایک اصول ہے : پیشے سے عشق کی چھٹی:۔ اگر آپ نے سوچا میں تیس مار خان نہیں بنوں گا بلکہ صحافت کو اس کی معراج پر لے جائوں گا سمجھ لیں آپ کی زندگی کی الٹی گنتی شروع ہوگئی ۔ جی ٹی وی کا اونر ہو یا نیوز پیپر کا ایڈیٹر ہر ایک آپ کو ایک کاغذ کا صفحہ پکڑا کر دروازے سے باہر کھڑا کردیں گے پھر آپ ہوں گے اور ایک ہاتھ میں سی وی پھر راتوں کو دعائیں کریں گے یا اللہ صحافت کو معراج دینے کا فیصلہ میں واپس لیتا ہوں ایڈیٹر کے دل میں سوراخ کرکے میرے لئے رحم پیدا کردے۔
نمبر ایک اصول ہے : پیشے سے عشق کی چھٹی:۔ اگر آپ نے سوچا میں تیس مار خان نہیں بنوں گا بلکہ صحافت کو اس کی معراج پر لے جائوں گا سمجھ لیں آپ کی زندگی کی الٹی گنتی شروع ہوگئی ۔ جی ٹی وی کا اونر ہو یا نیوز پیپر کا ایڈیٹر ہر ایک آپ کو ایک کاغذ کا صفحہ پکڑا کر دروازے سے باہر کھڑا کردیں گے پھر آپ ہوں گے اور ایک ہاتھ میں سی وی پھر راتوں کو دعائیں کریں گے یا اللہ صحافت کو معراج دینے کا فیصلہ میں واپس لیتا ہوں ایڈیٹر کے دل میں سوراخ کرکے میرے لئے رحم پیدا کردے۔
لباس:۔ صحافی کیلئے ضروری ہے کہ اس کا میک اپ اچھا ہو، ڈریس جیسا بھی ہو مگر تھوڑا سا اگر مرد ہیں تو انگریزی لک آنا چاہئے اگر خاتون ہیں تو پھر بی بی سی کی خاتون اینکرز کے لباس جیسا لباس ہو مگر پاکستان کے موسم میں ڈھلا ہوا ورنہ پھر پرچہ ہاتھ میں مل جانے کا خوف ہے۔ اس کیلئے اچھا یہ ہے کہ لائٹ ہائوس یا پھر ایل ایل بی مارکیٹ اچھی ہے وہاں کا دورہ کم از کم ماہ میں ۱۰ بار ضرور کریں یقینا تھوڑا سا ٹیلر کو کھلا کر آپ چند روپوں میں ایک اچھا سا انگریزی ڈریس حاصل کرسکیں گیں۔
اداکاری و فنکاری آنا:۔ضروی ہے آپ ایک اداکار ہوں ورنہ آپ کی یہ والی قسط بری طرح رینک انگ لسٹ سے خارج ہوکر ڈسٹ بن میں دیکھنے والوں کی چلی جائے گی۔ اداکاری کیلئے ضروری ہے کہ آپ کو چونکنا آتا ہو،طنزیہ مسکراہٹ آپ کا کھلونا ہو۔پریشان بننا ، پریشان لگنا یا پھر پریشان کرنے والا نظر آنا ضروری ہے اس کیلئے کسی ڈرامہ انسٹیٹیوٹ جوائن کرنا ضروری نہیں ہے آپ بڑے بڑے فنکار صحافیوں سے سیکھ سکتے ہیں۔ جو کہتے ہیں ہم تو قسمت کا لکھا پڑھ سکتے ہیں اور پڑھ کر سناتے بھی ہیں مگر عوام سادہ کو پتہ نہیں ہوتا وہ کاغذ سے پڑھ رہے ہیں یا پھر کہیں اور سے
تقریر کا ہنر: تقریر کا ہنر آنا ضروری ہے ورنہ اس طرح ہوجائے گا جیسے بارش میں گٹر کا بھر جانا (بارش سے انجوائے نہ کرسکیں اور گھر واپسی میں گٹر میں گر جائیں)تقریر کا ہنر آتا ہوگا تو مہمانوں کو ٹریٹ کر سکیں گے اگر کسی نے ذرا بھی سچ بولنے کی کوشش کی بات کو یوں گھمالیں جیسے پروگرام کرتے وقت چائے کا کپ گھماتے ہیں ۔
تقریر کا فن آتا ہوگا تو آپ کو سمجھ آئے گا کس طرح سے آپ غلط کو صحیح کریں گے اس کیلئے پھر کسی جگہ زانوئے ادب تہہ کرنے کی ضرورت نہیں ہمارے پیارے عامر لیاقت ڈاکٹر صاحب ہیں نا ان کے رمضان ٹرانسمیشن دیکھ لیں انعام گھر کی۔ خصوصا جب وہ گاڑی کیلئے سوال کرتے ہیں تو سوال ایسے کرتے ہیں گویا سامنے والے کو پزل کر رہےہوں ۔ ۔ ۔ جبکہ وہ کنفیوز ہوکر سوال ایسے کرتے ہیں کہ جواب اسی میں ہوتا ہے پھر اپنے مخاطب کو گھما دیتے ہیں پھر ڈس کوالی فائی کرکے ایک فرج پکڑا کے اللہ حافظ(ارے آپ مت جائیے گا ابھی تو پوری فلم باقی ہے)۔
صحافی بننے کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ
ڈانٹ پھٹکار کرنا سیکھیں:۔مخاطب کو ایسے رگیدیں گویا اس کی گدی پر ایک ہاتھ دے مارا ہو۔ اس طرح پرجوش کام سے آپ کی ریٹنگ بڑھے گی (مگر ایک کام پہلے کر لیں اپنے مہمان سے مک مکا کرلیں تاکہ جب واپس گھر جانا ہو تو سیکیورٹی گارڈ کی درخواست تھانے میں نہ جمع کروانی پڑے)۔
مطالعہ سے اجتناب:۔مطالعہ کرنا فضول ہوگا اس لئے دھیان دیں مخاطب کی بات سے بات نکالیں( اوپر ذکر کئے گئے گر ساتھ ملا کر )اس طرح بات کریں گویا آپ کو سب پہلے سے پتہ تھا۔کتاب و اخبار کا مطالعہ کریں گے تو حقائق پھر پرچہ ہاتھ میں پر سی وی پھر نماز میں توبہ ۔ ۔ ۔ لھذا اس کام سے اجتناب برتیں
ہاں اگر مہمان میں کسی ایک پارٹی کے حق مین بات کرنا ہو تو پوری تیاری کے ساتھ آئیں پوائنٹس بنا کر تاکہ مخالف مہمان منہ کھولے تو منہ کی کھاتا جائے(اس وقت وقفہ میں سوری کرنا مت بھولئے گا یہ بات تعویذ بنا لیں )۔
اسٹیشنری کا استعمال:۔ سب جانتے ہیں اسٹیشنری کتنی مہنگی ہے آخر کب تک آپ خریدتے رہیں گے؟ اس کا آسان سا حل یہ ہے کہ اسٹیشنری کا استعمال کریں مگر اپنی نہیں مہمانون کی یا پھر ڈائریکٹر کی مگر اپنی نہیں ۔ممکن ہے وہ سمجھ لیں آپ کی پالیسی تو پریشان نہ ہوں بلکہ جس وقت ریکارڈنگ شروع ہونے لگے تو کہ دیں یار ذرا پین تو دینا یا پھر یار ذرا پنسل دینا اور ایک سادہ کاغذ۔ ڈائریکٹر کو آگ لگتی لگے آپ کا تو کام ہوگیا نا۔ ۔ ۔
اب آتے ہیں اصل زندگی کی طرف یہاں بھی ایسے رہیں کہ سب کوپتہ چلے آپ معمولی چیز نہیں ہیں بلکہ اینکر ہیں میڈیا پرسنالٹی ہیں ۔ جی اب آپ پوچھین گے وہ کیسے؟ ارے بتاتے ہیں بتا ہی رہے ہیں (جلد بازی وہ واحد چیز ہے جس سے پرہیز کرنا ضروری ہے سیڑھی بنائیں دوسروں کے کاندھے مگر جلدبازی نہ کریں ورنہ وہ سمجھ لیں گے آپ کی پالیسی جس سے نقصان آپ کو ہی ہوگا۔)۔
اپنی گاڑی پر ایک اسٹیکر چپکائیں پریس کا ۔اور اب آپ کی گاڑی اور ایمولینس میں کوئی فرق نہیں رہا ۔ جتنی مرضی ٹریفک سگنل توڑیں ،پولیس کو تھپڑ مارلیں آپ ان کے ری ایکشن کو آزادی صحافت پرحملہ قرار دے سکتے ہیں ،اگر چالان ہو تو ایک کارڈ پر لکھ کر احتجاج سڑک پر بیٹھ جائیں پوری برادری ساتھ دینے آجائے گی پھر بے چارہ پولیس والا یا تو معطل ہوجائے گا یا پھر معافی مانگے گا پوری میڈیا کے سامنے۔آپ جس چینل پر ہیں وہاں تو یہ خبر بریکنگ نیوز بن کر چلے گی اس لئے کوئی غم نہیں۔
خفیہ رپورٹ:۔اگر آپ کو کوئی اہم کام ہو کسی ادارے میں یا شخصیت سے توپہلے انٹرویو کے بہانے ان سے بات کریں اور ان کا انٹرویو چینل پر چلانے کا وعدہ کرلیں۔ اگر انٹرویو والا پوئنٹ کام نہ چلے تو ایک خفیہ رپورٹ بنا لیں (چاہے ان ان کے کالے کاموں کی ہو یا میرٹ کی یا پھر جعلی ڈگری کی)پھر اس کو میڈیا میں لے آئیں اس طرح میڈیا کا موسم بھی بدلے گا ساتھ میں آپ کا کام بھی ہوجائے گا۔
مگر ایک بات کا خیال رہے کبھی بھی اپنے خلاف ثبوت نہ چھوڑیں ورنہ جھٹکا آپ کو ہی لگے گا بلفرض اگر ایسا ہو ہی جائے تو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں سینہ چوڑا کرکے کہیں یہ آزادی صحافت کے خلاف اعلان جنگ ہوئی ہے تو میں میڈیا کا سبپہ سالار ہوں پیچھے نہیں ہٹوں گا بس اب آپ صحافی کم صحافت کے علمبردار بن جائیں گے اگر زیادہ میڈیا میں ان ہوگئے تو آپ کے سیاست میں آنے کا چانس بن سکتا ہے۔
اداکاری و فنکاری آنا:۔ضروی ہے آپ ایک اداکار ہوں ورنہ آپ کی یہ والی قسط بری طرح رینک انگ لسٹ سے خارج ہوکر ڈسٹ بن میں دیکھنے والوں کی چلی جائے گی۔ اداکاری کیلئے ضروری ہے کہ آپ کو چونکنا آتا ہو،طنزیہ مسکراہٹ آپ کا کھلونا ہو۔پریشان بننا ، پریشان لگنا یا پھر پریشان کرنے والا نظر آنا ضروری ہے اس کیلئے کسی ڈرامہ انسٹیٹیوٹ جوائن کرنا ضروری نہیں ہے آپ بڑے بڑے فنکار صحافیوں سے سیکھ سکتے ہیں۔ جو کہتے ہیں ہم تو قسمت کا لکھا پڑھ سکتے ہیں اور پڑھ کر سناتے بھی ہیں مگر عوام سادہ کو پتہ نہیں ہوتا وہ کاغذ سے پڑھ رہے ہیں یا پھر کہیں اور سے
تقریر کا ہنر: تقریر کا ہنر آنا ضروری ہے ورنہ اس طرح ہوجائے گا جیسے بارش میں گٹر کا بھر جانا (بارش سے انجوائے نہ کرسکیں اور گھر واپسی میں گٹر میں گر جائیں)تقریر کا ہنر آتا ہوگا تو مہمانوں کو ٹریٹ کر سکیں گے اگر کسی نے ذرا بھی سچ بولنے کی کوشش کی بات کو یوں گھمالیں جیسے پروگرام کرتے وقت چائے کا کپ گھماتے ہیں ۔
تقریر کا فن آتا ہوگا تو آپ کو سمجھ آئے گا کس طرح سے آپ غلط کو صحیح کریں گے اس کیلئے پھر کسی جگہ زانوئے ادب تہہ کرنے کی ضرورت نہیں ہمارے پیارے عامر لیاقت ڈاکٹر صاحب ہیں نا ان کے رمضان ٹرانسمیشن دیکھ لیں انعام گھر کی۔ خصوصا جب وہ گاڑی کیلئے سوال کرتے ہیں تو سوال ایسے کرتے ہیں گویا سامنے والے کو پزل کر رہےہوں ۔ ۔ ۔ جبکہ وہ کنفیوز ہوکر سوال ایسے کرتے ہیں کہ جواب اسی میں ہوتا ہے پھر اپنے مخاطب کو گھما دیتے ہیں پھر ڈس کوالی فائی کرکے ایک فرج پکڑا کے اللہ حافظ(ارے آپ مت جائیے گا ابھی تو پوری فلم باقی ہے)۔
صحافی بننے کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ
ڈانٹ پھٹکار کرنا سیکھیں:۔مخاطب کو ایسے رگیدیں گویا اس کی گدی پر ایک ہاتھ دے مارا ہو۔ اس طرح پرجوش کام سے آپ کی ریٹنگ بڑھے گی (مگر ایک کام پہلے کر لیں اپنے مہمان سے مک مکا کرلیں تاکہ جب واپس گھر جانا ہو تو سیکیورٹی گارڈ کی درخواست تھانے میں نہ جمع کروانی پڑے)۔
مطالعہ سے اجتناب:۔مطالعہ کرنا فضول ہوگا اس لئے دھیان دیں مخاطب کی بات سے بات نکالیں( اوپر ذکر کئے گئے گر ساتھ ملا کر )اس طرح بات کریں گویا آپ کو سب پہلے سے پتہ تھا۔کتاب و اخبار کا مطالعہ کریں گے تو حقائق پھر پرچہ ہاتھ میں پر سی وی پھر نماز میں توبہ ۔ ۔ ۔ لھذا اس کام سے اجتناب برتیں
ہاں اگر مہمان میں کسی ایک پارٹی کے حق مین بات کرنا ہو تو پوری تیاری کے ساتھ آئیں پوائنٹس بنا کر تاکہ مخالف مہمان منہ کھولے تو منہ کی کھاتا جائے(اس وقت وقفہ میں سوری کرنا مت بھولئے گا یہ بات تعویذ بنا لیں )۔
اسٹیشنری کا استعمال:۔ سب جانتے ہیں اسٹیشنری کتنی مہنگی ہے آخر کب تک آپ خریدتے رہیں گے؟ اس کا آسان سا حل یہ ہے کہ اسٹیشنری کا استعمال کریں مگر اپنی نہیں مہمانون کی یا پھر ڈائریکٹر کی مگر اپنی نہیں ۔ممکن ہے وہ سمجھ لیں آپ کی پالیسی تو پریشان نہ ہوں بلکہ جس وقت ریکارڈنگ شروع ہونے لگے تو کہ دیں یار ذرا پین تو دینا یا پھر یار ذرا پنسل دینا اور ایک سادہ کاغذ۔ ڈائریکٹر کو آگ لگتی لگے آپ کا تو کام ہوگیا نا۔ ۔ ۔
اب آتے ہیں اصل زندگی کی طرف یہاں بھی ایسے رہیں کہ سب کوپتہ چلے آپ معمولی چیز نہیں ہیں بلکہ اینکر ہیں میڈیا پرسنالٹی ہیں ۔ جی اب آپ پوچھین گے وہ کیسے؟ ارے بتاتے ہیں بتا ہی رہے ہیں (جلد بازی وہ واحد چیز ہے جس سے پرہیز کرنا ضروری ہے سیڑھی بنائیں دوسروں کے کاندھے مگر جلدبازی نہ کریں ورنہ وہ سمجھ لیں گے آپ کی پالیسی جس سے نقصان آپ کو ہی ہوگا۔)۔
اپنی گاڑی پر ایک اسٹیکر چپکائیں پریس کا ۔اور اب آپ کی گاڑی اور ایمولینس میں کوئی فرق نہیں رہا ۔ جتنی مرضی ٹریفک سگنل توڑیں ،پولیس کو تھپڑ مارلیں آپ ان کے ری ایکشن کو آزادی صحافت پرحملہ قرار دے سکتے ہیں ،اگر چالان ہو تو ایک کارڈ پر لکھ کر احتجاج سڑک پر بیٹھ جائیں پوری برادری ساتھ دینے آجائے گی پھر بے چارہ پولیس والا یا تو معطل ہوجائے گا یا پھر معافی مانگے گا پوری میڈیا کے سامنے۔آپ جس چینل پر ہیں وہاں تو یہ خبر بریکنگ نیوز بن کر چلے گی اس لئے کوئی غم نہیں۔
خفیہ رپورٹ:۔اگر آپ کو کوئی اہم کام ہو کسی ادارے میں یا شخصیت سے توپہلے انٹرویو کے بہانے ان سے بات کریں اور ان کا انٹرویو چینل پر چلانے کا وعدہ کرلیں۔ اگر انٹرویو والا پوئنٹ کام نہ چلے تو ایک خفیہ رپورٹ بنا لیں (چاہے ان ان کے کالے کاموں کی ہو یا میرٹ کی یا پھر جعلی ڈگری کی)پھر اس کو میڈیا میں لے آئیں اس طرح میڈیا کا موسم بھی بدلے گا ساتھ میں آپ کا کام بھی ہوجائے گا۔
مگر ایک بات کا خیال رہے کبھی بھی اپنے خلاف ثبوت نہ چھوڑیں ورنہ جھٹکا آپ کو ہی لگے گا بلفرض اگر ایسا ہو ہی جائے تو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں سینہ چوڑا کرکے کہیں یہ آزادی صحافت کے خلاف اعلان جنگ ہوئی ہے تو میں میڈیا کا سبپہ سالار ہوں پیچھے نہیں ہٹوں گا بس اب آپ صحافی کم صحافت کے علمبردار بن جائیں گے اگر زیادہ میڈیا میں ان ہوگئے تو آپ کے سیاست میں آنے کا چانس بن سکتا ہے۔