حضرت حمزہ سید الشہدائ
حضرت حمزہ بن عبدالمطلب علیہ السلام رسولﷺ کے ہم عمر و چچا ہیں آپﷺ کی ولادت سے دو سال قبل اس دنیا میں تشریف لائے۔قریش میں سب سے بڑے دلاور ، برجستہ ، دوراندیش ، آزادمنش و بہترین شمشیرزن تھے جن کا کوئی مقابلہ کرنے کی تاب نہیں لاسکتا تھا۔جس وقت پورا عرب رسولﷺ کا شدید دشمن بنا ہوا تھا اس وقت حضرت ابوطالب علیہ السلام کےساتھ ساتھ حضرت حمزہ کی حمایت نے مشرکان کے دلوں کو لرزایا ہوا تھا تو مومنین کے دلوں پر سے لطف الھی تھےیہی وجہ تھی کہ مشرکین اپنے کینے سے بھرے وجود کے باوجود رسولﷺ کی بارگاہ میں جرئت نہیں کرسکتے تھے۔ رسولﷺنے ہمیشہ آپ پربھروسہ کیا اور اس کی مثال ہمیں حضرت حمزہ ع کی زندگی سے ملتی ہے۔آج اس وقت کہ امن ایک گمنام و نایاب شے بنا ہوا ہے حضرت حمزہ کی زندگی کی حکیمانہ و دلیرانہ رفتار حوصلہ دیتی ہیں کیوں کہ یہ ان حالات کا جزوی حصہ بھی نہیں جو قبل از اسلام تھے۔ روایات میں ہے کہ ایک بار جب حضرت حمزہ ع کہیں سے واپس آرہے تھے تو ایک کنیز نے سر راہ ان کا راستہ روک کر اطلاع دی کہ آپ کے بھتیجے کے ساتھ بہت برا سلوک ہوا ابوجہل نے ان کے سر پر نجاست ڈال دی ہے حضرت حمزہ ع نے تلوار نکالی رسولﷺ کو ساتھ لیا اور ابوجہل کے پاس آئے اور ان کے ساتھ مسجد الحرام کے پاس پہنچے جہاں ابوجہل بیٹھا ہوا تھا حضرت حمزہ ع نے بری طرح ابوجہل کو مارا اور رسولﷺ کی دلجوئی کی ۔رسولﷺ نے الھی و پرفیض حکومت کے استحکام و مضبوطی کیلئے حضرت حمزہ اور چند مجاہدین کو مدینہ کے دفاع کو مضبوط بنانے کی ذمہ داری دی۔ اس کے علاوہ ربیع الاول سال دوم ہجری میں رسولﷺ نے جب ابوائ ، ذات العشیرہ اور غزوہ بنی قینقاع کا جب قصد کیا تو ان غزوات کےعلمدار حضرت حمزہ تھے اسی پرچم تلے مسلمانوں نے ہر جنگ کو جیتا۔ جنگ بدر کے ایک سال بعد جب غزوہ احد کیلئے مشرکان مکہ اپنی طاقت جمع کرکے نکلے تو حضرت حمزہ دیگر مسلمانوں کے ساتھ اسلحہ بدن پر سجا کر بارگاہ رسالت مآب میں آئے اور اس طرح گفتگو کی
اس کی قسم جس نے آپ کو قرآن کے ساتھ بھیجا ہے آج ہاتھ غذا کو نہیں چھوئوں گا مگر یہ کہ مدینہ سے باہر جائوں اور
دشمن پراپنی تلوار اٹھائوں۔ ۔ ۔
حضرت حمزہ ؑ وہ شجاع و جنگجو ہیں جو اپنے دشمن و دوست کو پہچانتے تھے خود کو دشمن کی صفوں میں پہنچاتے اور اپنے قوت بازوو خون سے اسلام کی آبیاری کیا کرتےاسی لئےمشرکین مکہ ان کے وجود سے خوف کھاتے تھے کوشش کرتے تھے کہ وہ شہید ہوجائی تاکہ وہ نومولود اسلام کی کمر پر کاری ضرب لگا سکیں احد کے میدان میں حضرت حمزہ دو تلواروں کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے فرماتے تھے میں اللہ کا شیر ہوں۔
یہ شیر اور مرد شجاع ، دلیر،وفادار یا وفا کا پیکر ، ثابت قدم اور آسمان محافظین رسولﷺ کے سورج کو جنگ احد میں گہنا گیا مشرکین کی صفوں میں جب آپ اسلام کی جاں فشانی سے مدد کر رہے تھے اس وقت وحشی نامی غلام نے اس طرح سے نیزہ مارا کہ آپ اس کے اثر سے شہادت پر فائز ہوئے۔
رسولﷺ نے آپ کے بارے میں فرمایا:اللہ کے نزدیک قیامت کے دن شہیدوں کے سردار حضرت حمزہ ہیں
آپ کا روضہ میدان احد میں ہے جہان پر مومنین ، عارفین ، مجاہدین اور وفاشعار،عاشقان رسولﷺ درس عشق خدا و رسولﷺ پڑھتے ہیں۔
حوالہ : ماهنامه كوثر شماره 11
دشمن پراپنی تلوار اٹھائوں۔ ۔ ۔
حضرت حمزہ ؑ وہ شجاع و جنگجو ہیں جو اپنے دشمن و دوست کو پہچانتے تھے خود کو دشمن کی صفوں میں پہنچاتے اور اپنے قوت بازوو خون سے اسلام کی آبیاری کیا کرتےاسی لئےمشرکین مکہ ان کے وجود سے خوف کھاتے تھے کوشش کرتے تھے کہ وہ شہید ہوجائی تاکہ وہ نومولود اسلام کی کمر پر کاری ضرب لگا سکیں احد کے میدان میں حضرت حمزہ دو تلواروں کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے فرماتے تھے میں اللہ کا شیر ہوں۔
یہ شیر اور مرد شجاع ، دلیر،وفادار یا وفا کا پیکر ، ثابت قدم اور آسمان محافظین رسولﷺ کے سورج کو جنگ احد میں گہنا گیا مشرکین کی صفوں میں جب آپ اسلام کی جاں فشانی سے مدد کر رہے تھے اس وقت وحشی نامی غلام نے اس طرح سے نیزہ مارا کہ آپ اس کے اثر سے شہادت پر فائز ہوئے۔
رسولﷺ نے آپ کے بارے میں فرمایا:اللہ کے نزدیک قیامت کے دن شہیدوں کے سردار حضرت حمزہ ہیں
آپ کا روضہ میدان احد میں ہے جہان پر مومنین ، عارفین ، مجاہدین اور وفاشعار،عاشقان رسولﷺ درس عشق خدا و رسولﷺ پڑھتے ہیں۔
حوالہ : ماهنامه كوثر شماره 11