دو حسرتیں
حسرتیں انسان کو ضمیر کی عدالت میں سزائیں دیتی ہیں اگر لوجک ہو تو پھر ساری زندگی اسی عدالت کے کٹھیرے میں کھڑے گذر جاتی ہے۔میری زندگی بھی ایسی ہی دو حسرتوں کی گرد میں اٹی ہوئی ہے جس سے نکلنے کی میری ہر کوشش ضمیر کی عدالت ناکام بنا دیتی ہے ۔ کسی سزائے موت کے قیدی کی طرح الہی انتقام کا انتظار رہتا ہے جس سے دل ہرروز مرتا ہے۔
میری پہلی حسرت یہی ہے کہ میں نے موبائل کی زندگی میں قدم رکھا اور پھر خوشیاں روٹھ گئیں۔جس وقت میرے گھر میں موبائل آیا سب سے پہلے ابو جان نے اس کا استعمال شروع کیا۔ مجھے یاد ہے پہلی بار جب فون کی گھنٹی بجی تھی تب دادی نے رات کے کھانے میں ہم سے کہا
بچوں آج اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آگیا ہے سننا چاہو توہم سنائیں کھانے کے بعد؟
ہم سب نے کھانا جلدی جلدی کھا کر ڈرائنگ روم کا رخ کیا جہاں پر دادی اماں پاندان لئے بیٹھی تھیں ابو جان بھی وہیں تھے
بیٹا جب پہلی بار فون لگا تو ہم سب بہت خوش تھے محلے میں کسی کے گھر فون نہ تھا اب محلے والے ہمارے گھر آنے جانے لگے تھے محلے میں مولوی صاحب بھی رہتے تھے ایک بار ان کے بیٹے کا فون آیا آفس سے ان کی بیوی اور چھوٹی بیٹی سننے آئے ۔ جب بات کرلی تو بچی بری طرح رونے لگی چپ کرائے چپ نہ ہوتی تھی۔ گھر کے ہر فرد نے کوشش کرلی مگر بچی چپ ہونے کا نام نہ لیتی تھی تمہارے ابا میاں میرا مطلب ہے تم لوگوں کےدادا ابا اس دن جلدی آگئے تو بچی کو روتے دیکھ کر حیران رہ گئے۔ بچی کو باہر لے گئے کچھ دیر بہلا کر واپس لائے تو اس کی ماں نے پوچھا: شہزادی تو کیوں روئی تو بچی نے دوبارہ رونا شروع کردیا۔
دادی آخر بچی کو کیا ہوا تھا؟ میں نے سپنس کو ختم کروانے کی کوشش کی۔
شاہد میاں! بچی رو رو کہنے لگی ارے میرا بھیا اس موئے فون میں قید ہے اس کو باہر نکالو۔ ۔ ۔ ارے مر جائے گا
دادی کی بات سن کر سب ہنسنے لگے ۔یہ فون کی ابتدائ تھی اور اب ہمارے گھر موبائل کی ابتدائ ہوئی تھی دھیرے دھیرے موبائل ابو کے بعد دادی پھر امی پھر گھر کے ہر فرد کے ہاتھ میں آگیا۔ دادی چڑتی تھیں
سجاد میاں! ہمیں اس کا قیدی مت بنائو۔ ارے ہم اکیلے رہ جائیں گے
اور وہی ہوا اس موبائل کی دنیا میں جب سے قدم آیا سب نے گھر سے نکلنے کے بجائے موبائل پر ہی اکتفا کر لیا۔مرنا جینا ، سکھ ، دکھ سب اب موبائل پر ہی ہوتا ہے۔اگر کوئی گھر کے فرسٹ فلور پر ہے تو مس کال کی جاتی ہے نیچے بلانے کیلئے اگر کوئی چھپ پر پڑھ رہا ہے تو اس کو ایس ایم ایس کیا جاتا ہے نیچے آجائو تمہاری دوست آئی ہیں کمبائن اسٹیڈی کرنے کیلئے۔دوسری حسرت ہے گھروالوں سے دوری
اس موبائل کی وجہ سے ہم ایک دوسرے سے دورہو گئے ہیں ہر خبر بجلی کی سی تیزی کے ساتھ ایک کان سے پچاس کانوں میں چلی جاتی ہے ۔ اب تو فون میں ریکارڈنگ سسٹم بھی ہے جس کی وجہ سے ثبوت بھی لگے ہاتھ پہنچا دیا جاتا ہے۔ اگر ویڈیو میں ثبوت ہو تو الاماشائ اللہ
قرآن مجید میں ہے کہ اگر فاسق خبرلائے تو تصدیق کرلو ، مومن کو کہا ہے کہ اس کی بات پر یقین کرلو۔
اس موبائل کی وجہ سے مومن منافق نظر آتا ہے اور فاسق مع ثبوت کے مومن کامل
احادیث میں ہے کہ اگر کسی مومن کی بات سنو تو اس کی تاویل کرو اپنے ذہن میں خود ہی بہانے ڈھونڈو شاید غلط فہمی ہوگئی یا پھر سننے میں غلطی ہوئی ، شاید دیکھا غلط ہوگا۔ موبائل اور اس کے آئے دن آنے والے ورژن نے ان کو تقریبا ختم کردیا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مخالف سے اپنی مطلوبہ بات اس کی زبان پر لانے کیلئے لوگ ڈرامہ کرتے ہیں اور اسی ڈرامہ کو ہتھیار بنا کر ایک مومن پر الزام و تہمت لگا دیتے ہیں جس کو ایک مومن ثابت کبھی نہیں کرپاتا اور یوں وہ یا تو منافق قرار پاتا ہے یا پھر کچھ اور تہمت لگ جاتی ہے۔
آج یہی ہورہا ہے لوگ اپنے گھر والوں سے دور الگ ہوتے ہیں دوسرے فون پر ہی خیریت دریافت کرکے سمجھتے ہیں ذمہ داری ختم ہوگئی ۔ جب موبائل فون نہیں تھا اس وقت ہم لوگ اپنے بزرگوں کے پہلو سے لگے رہتے تھے جتنی بھی گھر میں ناچاقی ہو مگر بزرگوں کی مداخلت اور ان کے فیصلے ہمارے لئے باران رحمت ہوتے تھے مگر اب چوں کہ ثبوت کا سلسلہ ہے اس لئے بزرگ نہ عملی طور پربچوں کی زندگیوں میں داخل ہیں نہ ہی وہ گمان پر بچوں کی زندگیوں کو بچا سکتے ہیں آنے والے طوفانوں سے۔میری یہی حسرتیں ہیں کاش موبائل نہ ہوتا اور نہ ہم بزرگوں سے دور ہوتے ترقی آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے ناکہ اپنی کشتیاں جلا کر ان پر محل تعمیر کرنے کا۔
اس موبائل کی وجہ سے ہم ایک دوسرے سے دورہو گئے ہیں ہر خبر بجلی کی سی تیزی کے ساتھ ایک کان سے پچاس کانوں میں چلی جاتی ہے ۔ اب تو فون میں ریکارڈنگ سسٹم بھی ہے جس کی وجہ سے ثبوت بھی لگے ہاتھ پہنچا دیا جاتا ہے۔ اگر ویڈیو میں ثبوت ہو تو الاماشائ اللہ
قرآن مجید میں ہے کہ اگر فاسق خبرلائے تو تصدیق کرلو ، مومن کو کہا ہے کہ اس کی بات پر یقین کرلو۔
اس موبائل کی وجہ سے مومن منافق نظر آتا ہے اور فاسق مع ثبوت کے مومن کامل
احادیث میں ہے کہ اگر کسی مومن کی بات سنو تو اس کی تاویل کرو اپنے ذہن میں خود ہی بہانے ڈھونڈو شاید غلط فہمی ہوگئی یا پھر سننے میں غلطی ہوئی ، شاید دیکھا غلط ہوگا۔ موبائل اور اس کے آئے دن آنے والے ورژن نے ان کو تقریبا ختم کردیا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مخالف سے اپنی مطلوبہ بات اس کی زبان پر لانے کیلئے لوگ ڈرامہ کرتے ہیں اور اسی ڈرامہ کو ہتھیار بنا کر ایک مومن پر الزام و تہمت لگا دیتے ہیں جس کو ایک مومن ثابت کبھی نہیں کرپاتا اور یوں وہ یا تو منافق قرار پاتا ہے یا پھر کچھ اور تہمت لگ جاتی ہے۔
آج یہی ہورہا ہے لوگ اپنے گھر والوں سے دور الگ ہوتے ہیں دوسرے فون پر ہی خیریت دریافت کرکے سمجھتے ہیں ذمہ داری ختم ہوگئی ۔ جب موبائل فون نہیں تھا اس وقت ہم لوگ اپنے بزرگوں کے پہلو سے لگے رہتے تھے جتنی بھی گھر میں ناچاقی ہو مگر بزرگوں کی مداخلت اور ان کے فیصلے ہمارے لئے باران رحمت ہوتے تھے مگر اب چوں کہ ثبوت کا سلسلہ ہے اس لئے بزرگ نہ عملی طور پربچوں کی زندگیوں میں داخل ہیں نہ ہی وہ گمان پر بچوں کی زندگیوں کو بچا سکتے ہیں آنے والے طوفانوں سے۔میری یہی حسرتیں ہیں کاش موبائل نہ ہوتا اور نہ ہم بزرگوں سے دور ہوتے ترقی آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے ناکہ اپنی کشتیاں جلا کر ان پر محل تعمیر کرنے کا۔