حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا
حضرت فاطمہ معصومہ(س) امام موسیٰ الکاظم علیھم السلام کی دختر ہیں آپ کی شخصیت خاندان امام کاظم علیہ سلام برجستہ شخصیت تھی جنہوں نے جنہوں اپنے عصر میں بہت بزرگ ہستی سے کسب فیض کیا۔
مولف مستدرک سفینۃ البحار حضرت معصومہ (ص) کی تاریخ ولادت کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ
فاطمہ المعصومہ المولدہ فی غرہ دی القعدہ سنۃ ۱۷۳ ۔
حضرت فاطمہ معصومہ اول ذیقعدہ ۱۷۳ ھجری میں اس دنیا میں ۔تشریف لائیں۔امام موسیٰ کاظم ع کی چار بیٹیاں تھیں جن کے نام فاطمہ رکھے گئے جناب معصومہ قم ان سب میں سب سے بڑی تھیں ان کی دوسری بہنوں کے نام فاطمہ صغریٰ،فاطمہ وسطی ، فاطمہ اخری ہیں۔
ماحولِ تربیت
حضرت فاطمہ س جس ماحول میں پرورش پائی جس میں ماں ، باپ ، بہن و بھائی اخلاق نبویﷺ سے آراستہ تھے۔عبادت وزھد ، پارسائی ،تقویٰ ، سچائی ، بردباری ، استقامت ناپسندیدہ حادثات کے مقابلے میں ،سخاوت ، پاکدامنی و رسولﷺ کی پاکیزہ صفات کی حامل تھیں۔اس خاندان کے سرپرست ایک برگزیدہ ، ملکوتی صفات کے حامل تھے اور اسی آغوش سے حضرت فاطمہ س نے پرورش پائی ۔
والدہ حضرت معصومہ س
جناب حمیدہ خاتون ع امام موسیٰ کاظم ع کی والدہ نے امام موسیٰ کاظم ع کیلئے امام باقرؑ کے مشورے سے ایک پاک سیرت زوجہ حضرت نجمہ خاتون ع امام صادق ع کے نکاح میں لائیں .حضرت حمیدہ خاتون ع ایک بابصیرت خاتون اور محدثہ تھیں احادیث جو آپ ع نے امام صادق ع سے سنی تھیں ان کی۔راوی ہیں۔ آپ ع کو پاکیزگی و طہارت کی وجہ سے طاھرہ کہا جاتا تھا۔حضرت حمیدہ خاتون امام صادق ع کے عصر کی خواتین کی استاد تھیں حمیدہ خاتون ع فرماتی ہیں کہ ایک دن جب حضرت نجمہ ع ہمارے گھر آئیں میں نے پیامبرﷺ کو خواب میں دیکھا کہ مجھ سے فرماتے ہیں کہ اے حمیدہ ! نجمہ کو اپنے پسر موسیٰ ع کو بخش دیں اور ان کی شادی کردیں جلد ہی ایک بہترین فرد اس روی زمین پر متولد ہوگا
میں نے اس حکم پر عمل کیا نجمہ کاعقد امام موسیٰ کاظم ع سے کردیا جن سے امام رضا ع اس دنیا میں تشریف لائے۔
حضرت نجمہ خاتون ع پروردگار عالم کی مناجات و ذکر میں زیادہ متوجہ رہتی تھیں ولادت کے بعد جب رضاعت کے ایام میں آپ اپنی عبادت مثل سابق نہ کرسکیں تو آپ ع اھل خانہ سے تقاضہ کیا کہ ان کیلئے ایک دایہ کا انتظام کیا جائے۔ جب حضرت ع سے وجہ پوچھی گئی تو آپ ع نے فرمایا کہ
اللہ کی قسم جھوٹ نہیں بولوں گی ۔ ۔ ۔ میرے ذکر نماز و تسبیح و عبادت میں کمی آگئی ہے
حضرت معصومہ س درواقع بتول دوم ہیں جو کہ جلوہ ہیں حضرت فاطمہ س دختر رسولﷺ کا اس قدر پاکیزہ صفات کی حامل تھیں کہ امام ھشتم ع نے آپ کے نام کے ساتھ معصومہ کے لقب سے یاد فرمایا۔
آپ نے فرمایا: من زارالمعصومہ بقم کمن زارنی
جس نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی زیارت قم میں کی اسی طرح ہے جیسے اس نے میری زیارت کی۔
خاندان بالاعصمت نے جب امام صادق ع سے آپ کے بارے میں سنا تو ولادت کے منتظر تھے جس وقت آپ کی ولادت ہوئی اھل بیت عصمت و طہارت کے ساتھ ساتھ امام رضاع بھی بہت خوش تھے کیوں کہ یہ وہ آسمانی ستارہ تھیں جو امامت و ولایت کے آسمان پر طلوع ہوا تھا جس کے وجود سے حضرت زھرہ س کی بو آتی تھی تو رخ انور سے زندگی کی جلا ملتی تھی دل کو سکون و راحت۔ جس طرح رسولﷺ دیگر فرزندوں سے زیادہ صرف حضرت زھرہ س سے بہت شدید محبت کرتے تھے اسی طرح سے امام موسیٰ کاظم ع اپنی اس بیٹی پر بہت مہربان تھے دوسری بیٹیوں میں آپ کا زیادہ خیال رکھتے سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ کیوں بیٹیوں کےدرمیان اتنا فرق؟ یہ امامت کے لحاظ سے کیا صحیح ہے؟ جی ہاں قرآن مجید کی آیات و پیغمبر اکرمﷺ کے اقوال اور آئمہ ع کی سیرت بتاتی ہے کہ انسان کی سب سے زیادہ عزت و احترام کی وجہ تقویٰ ہوتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا اپنی جدۃ فاطمہ سلام اللہ علیھا کی طرح علم ، کمالات ، اطاعت خداوندی میں سب پر سبقت رکھتی تھیں۔
جس وقت مامون نے امام رضاع کو خراسان(مشہد مقدس)بلایا تولوگوں کو جیسے ہی آپ ع کی آمد کا علم ہوا تو ملاقات و مہمان بنانے کی خواہش میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرنے لگے۔ امام رضا ع نے(ان کی محبت کے پیش نظر) فرمایا: ان الناقہ مامورۃ
میرا یہ اونٹ مامور ہے جہاں یہ جائے گا وہی میری منزل ہوگی۔
جس گھر میں آپ ع کے ناقہ نے قیام کیا اس کے صاحب خانہ نے گذشتہ رات ہی خواب دیکھا تھا کہ امام رضاع اس کے گھر مہما ن ہوئے ہیں اور امام رضاع نے اس کے گھر میں قیام کیا امام ع کی زیارت کی آج اس جگہ مدرسہ تعمیر کیا گیا جوکہ مدرسہ رضوی کے نام سے معروف ہے۔
حضرت معصومہ س درواقع بتول دوم ہیں جو کہ جلوہ ہیں حضرت فاطمہ س دختر رسولﷺ کا اس قدر پاکیزہ صفات کی حامل تھیں کہ امام ھشتم ع نے آپ کے نام کے ساتھ معصومہ کے لقب سے یاد فرمایا۔
آپ نے فرمایا: من زارالمعصومہ بقم کمن زارنی
جس نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی زیارت قم میں کی اسی طرح ہے جیسے اس نے میری زیارت کی۔
خاندان بالاعصمت نے جب امام صادق ع سے آپ کے بارے میں سنا تو ولادت کے منتظر تھے جس وقت آپ کی ولادت ہوئی اھل بیت عصمت و طہارت کے ساتھ ساتھ امام رضاع بھی بہت خوش تھے کیوں کہ یہ وہ آسمانی ستارہ تھیں جو امامت و ولایت کے آسمان پر طلوع ہوا تھا جس کے وجود سے حضرت زھرہ س کی بو آتی تھی تو رخ انور سے زندگی کی جلا ملتی تھی دل کو سکون و راحت۔ جس طرح رسولﷺ دیگر فرزندوں سے زیادہ صرف حضرت زھرہ س سے بہت شدید محبت کرتے تھے اسی طرح سے امام موسیٰ کاظم ع اپنی اس بیٹی پر بہت مہربان تھے دوسری بیٹیوں میں آپ کا زیادہ خیال رکھتے سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ کیوں بیٹیوں کےدرمیان اتنا فرق؟ یہ امامت کے لحاظ سے کیا صحیح ہے؟ جی ہاں قرآن مجید کی آیات و پیغمبر اکرمﷺ کے اقوال اور آئمہ ع کی سیرت بتاتی ہے کہ انسان کی سب سے زیادہ عزت و احترام کی وجہ تقویٰ ہوتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا اپنی جدۃ فاطمہ سلام اللہ علیھا کی طرح علم ، کمالات ، اطاعت خداوندی میں سب پر سبقت رکھتی تھیں۔
جس وقت مامون نے امام رضاع کو خراسان(مشہد مقدس)بلایا تولوگوں کو جیسے ہی آپ ع کی آمد کا علم ہوا تو ملاقات و مہمان بنانے کی خواہش میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرنے لگے۔ امام رضا ع نے(ان کی محبت کے پیش نظر) فرمایا: ان الناقہ مامورۃ
میرا یہ اونٹ مامور ہے جہاں یہ جائے گا وہی میری منزل ہوگی۔
جس گھر میں آپ ع کے ناقہ نے قیام کیا اس کے صاحب خانہ نے گذشتہ رات ہی خواب دیکھا تھا کہ امام رضاع اس کے گھر مہما ن ہوئے ہیں اور امام رضاع نے اس کے گھر میں قیام کیا امام ع کی زیارت کی آج اس جگہ مدرسہ تعمیر کیا گیا جوکہ مدرسہ رضوی کے نام سے معروف ہے۔
امام رضا ع کے سفر کے ایک سال بعد سفر کا ارادہ کیا بہنوں اور خاندان کے ساتھ قم کی طرف سفر شروع کیا مگر حضرت فاطمہ صغریٰ و خدیجہ خاتون اس دنیا سے رخصت ہوگئیں اور آشتیان کے نواحی گائوں و نزدیک مزار طیب و طاھر مدفون ہوئیں۔شہر ساوہ سے گذرتے ہوئے آپ ع جب قم میں وارد ہوئیں آپ اگاہ ہوئیں کہ امام رضا ع شہید ہوگئے ہین تو آپ ع اس صدمہ کو برداشت نہ کرسکیں اور چند ہی روز میں ۲۸ سال می عمر میں ۱۲ ربیع الثانی ۲۰۱ ہجری قمری میں شہید ہوگئین اور آپ کی قبر مقدس قم کے قلب میں واقع ہے جو کہ ہر لمحہ فیوض و برکات کا چشمہ ہے جس سے انسانیت سیراب ہورہی
ہے۔
اب ہم آخر میں اپنی بات کے اختتام کوان فیوض و برکات الھی جو روضہ مطھر پر ہیں ان میں سے ایک فیض کو نقل کر کے متبرک کریں گے:۔
آقائی مختار شعبانی جو کہ حرم مطھر حضرت معصومہ ع قم کے خادمین و ذاکرین میں سے ہیں بتاتے ہیں کہ میرا دوسالہ بچہ بیمار ہوگیا اس قدر کہ ایک رات مجھے اس کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا پڑا کیوں کہ بہت رات ہوچکی تھی اور ڈاکٹر کا ملنا مشکل تھا اور عین ممکن تھا کہ کلینک بند ہی ہوں میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ بچے کو گرم کپڑے یا چادر میں لپیٹ دے تاکہ اس کو ٹھنڈک نہ لگ جائے میں اس کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ہوں تم نہیں جائو۔ بیوی نے زیادہ اصرار نہیں کیا اور بچہ کو چادر میں لپیٹ کر میرے ساتھ کردیا ۔ میں بجائے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے سیدھا حرم مطھر حضرت معصومہ ع لے گیا اور سرہانے کی طرف لٹا دیا اور بچے کے برابر میں لیٹ گیا اور حضرت معصومہ ع سے کہنے لگا : میں لے آیا ہوں اصلی ڈاکٹر تو آپ ہیں میرے بچے کو شفا عنایت فرمائیں !اگر شفا نہیں دی تو آپ کو اپ کے والد حضرت موسیٰ بن جعفر ع اور ٹوٹے ہوئے دل حضرت جواد الآئمہ ع کا واسطہ خدا سے دعا کریں کہ میرا اور میرے بچے کا جنازہ اس حرم سے باہر جائے۔
میں رونے لگا اور دعائوں میں مصروف ہوگیا چند لمحوں بعد میں نے کیا دیکھا کہ میرا بیمار بچہ اٹھا اور اپنے قدموں پر چلنے لگا میں بغیر کسی کو شفا کی اطلاع دیئے بچے کو اٹھا کر گھر لے آیا میں جانتا تھا کہ اس کی ماں شدید بے چین و پریشان ہوگی اور منتظر ہوگی کب میں گھر واپس آئوں گا۔ گھرآکر میں نے بچہ اس کی ماں کی گود میں دیتے ہوئے کہا:۔ یہ لو ڈاکٹر کے پاس سے لا رہا ہوں۔اس نے پوچھا : پھر دوا کہاں ہے؟
اس وقت میں مجبور ہوچکا تھا کہ اس سربستہ راز سے پردہ اٹھائوں میں نے پوری حقیقت بیان کی کہ میں بچے کو مادی ڈاکٹر کے بجائے روحانی ڈاکٹر کے پاس لے گیا تھا۔ انھوں نے عنایت فرمائی اور شفا کامل عطا کردی۔
میری بیوی رونے لگی گویا وہ بھی کسی راز کو بیان کرنا چاہتی تھی ۔ اسی وقت کہ جب تم گئے میں لیٹ گئی کیا دیکھتی ہوں کہ ایک خاتون کو دیکھا جو مجھ سے کہ رہی تھیں اٹھو !تمھارا شوہر آرہا ہے ہم نے تمہارے بچے کو شفا دے دی ہے۔
ہے۔
اب ہم آخر میں اپنی بات کے اختتام کوان فیوض و برکات الھی جو روضہ مطھر پر ہیں ان میں سے ایک فیض کو نقل کر کے متبرک کریں گے:۔
آقائی مختار شعبانی جو کہ حرم مطھر حضرت معصومہ ع قم کے خادمین و ذاکرین میں سے ہیں بتاتے ہیں کہ میرا دوسالہ بچہ بیمار ہوگیا اس قدر کہ ایک رات مجھے اس کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا پڑا کیوں کہ بہت رات ہوچکی تھی اور ڈاکٹر کا ملنا مشکل تھا اور عین ممکن تھا کہ کلینک بند ہی ہوں میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ بچے کو گرم کپڑے یا چادر میں لپیٹ دے تاکہ اس کو ٹھنڈک نہ لگ جائے میں اس کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ہوں تم نہیں جائو۔ بیوی نے زیادہ اصرار نہیں کیا اور بچہ کو چادر میں لپیٹ کر میرے ساتھ کردیا ۔ میں بجائے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے سیدھا حرم مطھر حضرت معصومہ ع لے گیا اور سرہانے کی طرف لٹا دیا اور بچے کے برابر میں لیٹ گیا اور حضرت معصومہ ع سے کہنے لگا : میں لے آیا ہوں اصلی ڈاکٹر تو آپ ہیں میرے بچے کو شفا عنایت فرمائیں !اگر شفا نہیں دی تو آپ کو اپ کے والد حضرت موسیٰ بن جعفر ع اور ٹوٹے ہوئے دل حضرت جواد الآئمہ ع کا واسطہ خدا سے دعا کریں کہ میرا اور میرے بچے کا جنازہ اس حرم سے باہر جائے۔
میں رونے لگا اور دعائوں میں مصروف ہوگیا چند لمحوں بعد میں نے کیا دیکھا کہ میرا بیمار بچہ اٹھا اور اپنے قدموں پر چلنے لگا میں بغیر کسی کو شفا کی اطلاع دیئے بچے کو اٹھا کر گھر لے آیا میں جانتا تھا کہ اس کی ماں شدید بے چین و پریشان ہوگی اور منتظر ہوگی کب میں گھر واپس آئوں گا۔ گھرآکر میں نے بچہ اس کی ماں کی گود میں دیتے ہوئے کہا:۔ یہ لو ڈاکٹر کے پاس سے لا رہا ہوں۔اس نے پوچھا : پھر دوا کہاں ہے؟
اس وقت میں مجبور ہوچکا تھا کہ اس سربستہ راز سے پردہ اٹھائوں میں نے پوری حقیقت بیان کی کہ میں بچے کو مادی ڈاکٹر کے بجائے روحانی ڈاکٹر کے پاس لے گیا تھا۔ انھوں نے عنایت فرمائی اور شفا کامل عطا کردی۔
میری بیوی رونے لگی گویا وہ بھی کسی راز کو بیان کرنا چاہتی تھی ۔ اسی وقت کہ جب تم گئے میں لیٹ گئی کیا دیکھتی ہوں کہ ایک خاتون کو دیکھا جو مجھ سے کہ رہی تھیں اٹھو !تمھارا شوہر آرہا ہے ہم نے تمہارے بچے کو شفا دے دی ہے۔
عیون اخبارالرضا ج۱ ص ۱۵
مستدرک سفینہ البحار ج۸ ص ۲۵۷
اعلامالوریٰ ص ۳۰۲
منبع: عنوان كتاب؛ عنايات معصوميه از زبان خادمين آستانه مقدسه حضرت معصومه (س) - نويسنده : محمد علي زيني وند
استان مقدس حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا
منبع: عنوان كتاب؛ عنايات معصوميه از زبان خادمين آستانه مقدسه حضرت معصومه (س) - نويسنده : محمد علي زيني وند
استان مقدس حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا