میری کہانی میری زبانی
آج پڑوسی نے ایک جگہ کا بتایا ہے وہ کہ رہی تھی کہ ڈاکٹر بہت اچھا ہے چلیں؟‘‘۔’’
ہر ایک کے پیچھے چل پڑتی ہو پتہ نہیں کہاں کہاں خوار ہورہی ہو تم ‘‘۔میں نے اپنی بیوی کے کمزوری و نقاہت سے کانپتے’’
وجود کو دیکھتے ہوئے کہا۔
ماں ہوں نا اس لئے ۔ ۔ ۔ میرا دل کہتا ہے کہ یہ ٹھیک ہوجائے گا ‘‘۔ ’’
صالحہ
بچے کو گود میں لے کر پیار کرنے لگی۔ یہ میرا آٹھ سالہ بیٹا تھا جس کو
اللہ جانے کیا بیماری ہوئی تھی۔اس کے سر کے اور پلکوں کے بال جھڑ گئے اور
سر و چہرے کی جلد زرد ہوگئی تھی۔ ہر کوئی اس کوئی اس بیماری پر عجیب سا
احساس دلاتا تھا ۔میں ڈاکٹر کے چکر لگا چکا تھا مگر ڈھاک کے وہی دو پات صحت
نے تو گویا اس سےمنہ موڑ لیا تھا اور ہم ماں باپ کا دل ہر لمحہ جھلستا
رہتا تھا۔ڈاکٹر کی دوائی ، ڈاکٹر کی فیس اور گھر کے اخراجات اتنے تھے کہ
میں تھکنے لگا تھا پینل سے نہیں بلکہ باہر سے دوا خریدنے لگا تاکہ اخراجات
تنخواہ سے نہ کٹیں ۔انجیکشن کیلئے ضروری تھا کہ مستند ڈاکٹر ہی لگائے جس کی
فیس تقریبا سات سو تومان تھے میں جو ایک کاریگر ہوں اس کو برداشت نہیں
کرسکتا تھا۔
ایک دن میں نے
دوائی کی پرچی ایک اپنے ساتھ کام کرنے والے آغا طالبی کو دی اس کوکہا کہ
میرے بچے کیلئے دوا خرید لائے کچھ عرصہ گذر گیا یہاں تک کے ماہ رمضان آگیا
اور حرم مطھر کی طرف سے خادمین اور ان کے گھر ولوں کیلئے افطاری کا انتظام
ہوا حرم میں۔ میں اس افطار کی دعوت میں اپنے بیمار بیٹے کو بھی لے گیا۔
آغا طالبی نے جب بچے کو دیکھا تو ان کا دل بھی بجھ کر رہ گیا چہرے پر افسردگی ابھر آئی تآسف کے ساتھ پوچھنے لگے
کیا تم چاہتے ہو کہ تمہارے بچے کیلئے اچھے ڈاکٹر کا بتائوں؟ ‘‘۔’’
میں حیران رہ گیا اگر واقعی ان کو ڈاکٹر کا پتہ ہے؟
ہاں ۔ ۔ ۔کیوں نہیں؟ ‘‘۔’’
تم تو حرم مطھر کے اندر کام کرتے ہو جائو علاج بھی ان سے ہی لو۔‘‘۔’’
ان جیسا ڈاکٹر تو زمین کے کسی حصے پر نہیں ملے گا جائو ان سے شفا طلب کرو‘‘۔’’
ان جیسا ڈاکٹر تو زمین کے کسی حصے پر نہیں ملے گا جائو ان سے شفا طلب کرو‘‘۔’’
یہ
سنتے ہی میرا دل ٹوٹ گیا ۔ ۔ ۔ وحشت نے دل میں ڈیرہ ڈال لیا یعنی اتنا
عرصہ ہوگیا مجھے خیال ہی نہیں آیا کہ اس ڈاکٹر کو دکھائوں جو سیدوں کی
پھوپھی ہے ، ماں ہے ۔ ۔ ۔دل گویا پھٹ ہی گیا آنسو حلق میں اٹکنے لگے میں
نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کے سامنے شرمندہ ہوتے ہوئے بچے کو گود
میں اٹھایا وضو کیا دورکعت نماز حرم مطھر میں پڑھی اور بی بی ع کے سامنے
گڑگڑانے لگا۔
بی بی معصومہ س اس بچے کو صحت دے دیں یا پھر موت۔اب اس کے بعد میں کسی بھی ڈاکٹر کے پاس نہیں لے کر جائوں ’’
اب میرے اندر طاقت نہیں کے اس زندہ لاش کا بوجھ ڈھو سکوں۔ ۔ ۔‘‘۔
میں
شدت سے رو رہا تھا میرا ذھن خدشات سے دور اپنی بی بی سیدہ کے حضور میں تھا
یہاں تک کہ بچہ بھی مجھے نظر نہی آرہا تھا پھر مجھے پتہ بھی نہ چلا کہ
کیا ہوا کب ہوا کیسے ہوا مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اب
تیرہ سال گذر گئے ہیں میں اس دن کے بعد اپنے بچے کو پھر کسی ڈاکٹر کے پاس
لے کر نہیں گیا۔ میرا بیٹا بالکل ٹھیک ہے اس کے سر و پلکوں کے بال قدرتی
طور پر ٹھیک نکل آئے ہیں اور اس کو شفا کاملہ حاصل ہوگئی۔
منبع: عنوان كتاب؛ عنايات معصوميه از زبان خادمين آستانه مقدسه حضرت معصومه (س) - نويسنده : محمد علي زيني وند