twitter
rss

گہری سیاہ رات اور وہ
یہ سیاہ اماوس ہی کی رات تھی تھکن و گرمی سے برا حال سب دعائیں کررہے تھے کہ بس کسی طرح اللہ کرے بارش ہوجائے مگر لگتا تھا کراچی کی طرف سے اللہ شدید ناراض ہے دنوں و راتوں نے گویا جہنم کے انگاروں سے بنی موسم کی چادر اوڑھ رکھی تھی ۔
تمہیں سمجھ کیوں نہیں آتی ہے‘‘۔ شمی نے تلخی کے ساتھ میرے ہاتھ پر ہاتھ مارا’’
غصے سے مجھ سے اب اسٹیرئنگ نہیں سنبھل رہی تھی۔ 
مار دو کہیں تاکہ ہم دونوں ختم ہوجائیں ‘‘۔ شمی نے تقریبا چیختے ہوئے کہا’’
دیکھو میری بات سمجھو! مانا تم اسے بھائی سمجھتی ہو مگر اس کی نگاہوں میں میں نے تمہارے لئے پاکیزہ محبت نہیں ’’
دیکھی ہے سمجھو میری بات ‘‘۔ میں نے بے بسی سے دوبارہ اپنی بات دھرائی ۔
تم ہوتے کون ہو اس بات کو کرنے والے ؟ شک کرنے کی عادت ہے ۔  ۔۔ ۔ بڑے مذہبی بنتے ہو مذہب نے تمہیں صرف یہ ’’
سکھایا ہے جائو بیوی پر شک کرو پھر کار کوری کے الزام میں اسے قتل کردو‘‘۔
شمی نے نجانے کس کی بات میرے سر تھوپ دی۔ اس وقت میں غصے میں تھا آخر یہ احمق سمجھتی کیوں نہیں ہے
اس کے والد کے کاروبار اور اس کے اکلوتی ہونے کی وجہ سے بھیڑیے اس کے گرد جمع ہیں باپ کی نہیں تو میری بات سمجھ لے مگر بے سود ہی تھا۔
میرا دل کیا زور سے اس کو اٹھا کر باہر پھینک دوں
لگتا ہے دودھ کے دانت نہیں ٹوٹے ہیں جب دیکھو بچپنا!‘‘۔’’
ک ۔ ۔ ۔ کیا کہا! دوبارہ بولو۔ ۔  ۔‘‘۔وہ یوں اچھلی گویا کسی نے مٹی کا تیل چھڑک دیا ہو آگ پر’’
میں نے کیا کہا؟‘‘۔ میں نے تنک کر پوچھا ’’
مجھے اتارو یہاں پر!‘‘۔اس نے میرے صبر کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے چیخ کر کہا’’
دیکھو سمجھنے کی کوشش کرو!‘‘۔’’
تم روکتے ہو یا نہیں ؟ میں اب چھلانگ لگانے والی ہوں‘‘۔’’
شمی تقریبا ۶ ماہ سے پریگنٹ تھی اس وقت اس کا غصہ سے برا حال تھا ڈاکٹر نے بھی کہا تھا کہ ان کو اسٹریس نہ لینے دیں مگر وہ موقع پر بات نہیں سمجھتی بعد میں کہتی ہے تم نے اس وقت کیوں نہ روکا ! اب کون اسے بتائے یہ وقت اس کو اپنے بچے پر توجہ دینے کا ہے نہ کے دوسروں کی باتوں میں آکر پیسہ پانی بنانے کا۔
تو تم نہیں روکوگے؟‘‘۔ شمی نے وحشت سے بھری آنکھیں مجھ پر جما دیں ’’
سرخ آنکھوں میں ٹپکتی وحشت سے میرا دل دھک سے رہ گیا۔
  ، سی ویو کا سناٹے سے بھرا روڈ ، اوپر سے سیاہ رات ، ہو کا عالم، دور دور تک اسٹریٹ لائٹ تک نہ تھیں ، نہ آدم نہ آدم زاد سیاہ را ت اپنا دامن پھیلائے بیٹھی تھی  
اے اللہ کیا کروں! امام زمانہ عج میں کیا کروں بتائیں میں کیا کروں! ‘‘۔ اس وقت میں بھی پاگل ہی ہو چکا تھا’’
یکدم میرے ہونٹوں سے چیخ نکلی ’’یا امام زمانہ عج ادرکنی‘‘مولا مجھے اکیلا نہ چھوڑیں
میری چیخ اتنی تیز تھی کہ میرے اپنے کان بج اٹھےاس وقت حالات یہ تھے کہ 
میری بیوی دروازہ کھول چکی تھی اگر میں اسٹیرنگ پر کنٹرول رکھوں تو وہ کود سکتی تھی اگر اسٹیرنگ چھوڑوں تو میں اپنے اس معصوم بچے کو اپنے ساتھ ساتھ گنوا دیتا جس نے اس دنیا میں سانس تک نہ لی تھی 
 آقا ! اس وقت امام زمان عج کیوں نہیں آئے؟‘‘۔’’
میں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپ کر سسکیوں سے رونے لگا۔
بیٹا ! پانی پی لو!پھر بات کرتے ہیں‘‘۔’’
بمشکل تمام پانی سے میں نے اپنے سوکھے ہونٹوں کو تر کیا۔ میں اس واقعہ کے بعد ٹوٹ ہی چکا تھا میرے اعصاب سے اب اسٹریس برداشت نہیں ہورہا تھا۔
ہاں تو کیا نام ہے آپ کا‘‘؟مولانا صاحب نے بات کو دوبارہ شروع کرتے ہوئے کہا’’
اسد  ۔ ۔ ۔ اسد جعفری‘‘۔ ’’
اچھا ! تو تمہاری بیوی نے چھلانگ لگا لی تھی؟‘‘۔ مولوی صاحب نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا’’
نہیں ! وہ میری چیخ سے ڈر گئی تھی‘‘۔ میں مسکرایا’’
پھر طلاق تو ہوگئی ہوگی‘‘؟ انھوں نے دوسرا سوال کیا’’
 نہیں آقا صاحب! اصل میں بات تھی وہی سادہ سی جو اسکی سمجھ میں نہیں آرہی تھی بعد میں اس کے والد و والدہ نے بیٹھ ’’
کر اسے سمجھایا تو وہ سمجھ گئی اور یہ بات ختم ہوگئی‘‘۔
بیٹا! پھر امام زمان عج سے اور کیا کام تھا وہ جو باتیں تمہارے ذہن میں تھیں وہ تو انھوں نے حل کردی تھیں‘‘؟’’
مولانا صاحب کی بات پر میں چونکا واقعی مجھے ضرورت اس وقت اسی بات کی تھی بیوی اس خطرناک مقام پر اترنا چاہتی تھی جہاں اترنا اس کیلئے بہت نامناسب تھا۔
مگر میں نے امام زمان عج کو بلایا تھا انکو آنا چاہیے تھا مدد کیلئے‘‘۔ میں نے اپنی بات کی وضاحت کی’’
وضاحت اپنی جگہ تھی میرے دل میں اطمینان آگیا تھا کہ امام عج سے جو مانگا وہ مل گیا
بیٹے ! نوکر کو بلائو پانی کیلئے تو وہ دوڑا چلا آئے گا کیوں کہ وہ نوکر تمہارا ہے نہ تم اس کے نوکر!’’
اسی طرح امام کو تم نے بلایا امام آئے اور مدد کی اب کس طرح مدد کریں یہ ان کی مرضی‘‘۔
مولانا صاحب نے کچھ دیر سانس لیا ان کی صحت ایسی تھی کہ وہ زیادہ بات نہیں کرسکتے تھے۔
جس طرح تم اپنے معاملات کو خود ہینڈل کرتے ہو اور کسی کی اس میں ذرہ بھی دخالت برداشت نہیں کرسکتے ہو اسی ’’
طرح امام زمان عج ہیں ان کی مرضی کس طرح اور کیسے ہماری مدد کریں ۔ ہمارا مدد مانگنا فرض ہے اب ان پر ہے جیسے مرضی کریں مدد۔ ان کو حکومتوں کو چلانا ہے اور فاسد حکومتوں کو قابو میں کرنا ہے اگر ہماری باتوں پر عمل کرنے لگے تو حکومتیں ڈوب جائیں اور اور خاندان تباہ ہوجائیں جیسے آپ کا ہونے والا تھا‘‘۔
مولانا صاحب نے سچ ہی کہا تھا یہ فلمز دیکھ دیکھ کر ہمارے نظریات بھی بدل ہی گئے  ہیں ہم بھی چاہتے ہیں امام زمان عج بیٹ مین ، اسپائیڈر مین یا پھر اسی طرح کسی ہیرو کی شکل میں آئیں اور ہماری مدد کریں ۔
جبکہ ہم تو غیبت کا اقرار پہلے کرتے ہیں 
الذین یومنون بالغیب
پھر کب سے ہم مادی ہیروز کے بارے میں سوچنے لگے؟

2 comments:

  1. بہت اچھا لکھا ہے

  1. i will write a story on cruelty done by Kharachi person. Would you like to publish it on ur blog

Post a Comment