بھوت؟
کچھ دنوں پرانی بات ہے کہ ایک بچہ تھا جس کا نام حسن اور اس کی بہن کا نام تھارجا
انکے محلے میں ایک بچہ رہتا تھا جس کا نام تھا شہاب
وہ اسکول سے بھاگتا تھا اسکول اسکو پسند نہیں تھا مگر وہ ٹیوشن ضرور جاتا تھا کیوں کہ ٹیوشن والی
آنٹی بہت غصہ والی تھیں وہ جب سو کر اٹھتا تو بہت روتا تھا مگر ٹیوشن کے وقت بابا گھر پر نا ہوتے تھے اور
مما اس کو پیار سے بہلا پھسلا کر ٹیوشن بھیج دیتی تھیں
تو بچوں ہوا یہ کہ ایک بار وہ گھر سے نکلا تا کہ وہ ٹیوشن جائے مگر راستے میں اسکی نظر ایک آئس کریم والے پر پڑھی وہ خرید لی اور آگے گیا تو راستے میں ایک کرتب دکھانے والے کو دیکھا جو بندر ،کتا اور دوسرے حیوانات کے ساتھ کرتب
دکھا رہا تھا وہ آئس کریم کھاتا جا رہا تھا اور ساتھ ساتھ دیکھنے بھی لگا اور یوں ٹیوشن کے ٹائم کے ساتھ ساتھ وقت اتنا گزر گیا کہ سب پریشان ہو گئے وہ کہاں گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور چوڑا انسان کھڑا تھا
اس کو دیکھ کر شہاب لرز اٹھا وہ انسان بری طرح ہل رہا تھا شہاب کے دانت سردی اور خوف سے
ارے وہ چونکا رات کا اندھیرا تقریبا پھیلنا شروع ہو گیا تھا
بادلوں کی وجہ سے تاریکی ،اسٹریٹ لائٹ کا نا ہونا،اکیلا ہونا وغیرہ سے شہاب کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا وہ اپنا بیگ سنبھال کر تیز قدموں کے ساتھ گھر کی طرف چلنے لگا اس کو پتہ تھا اب بابا کا غصہ آسمان پر پھنچ گیا ہوگا
اور اسکو آج کوئی نہیں بچاسکے گاوہ منہ بسورتا ہوا سہما ہوا چل رہا تھا اسکی شرٹ اچانک نم ہونے لگی وہ چونکا ارے
اس موسم میں اتنا پسینہ؟ اس نے شرٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے سوچا مگر یہ پسینہ نا تھا اصل میں یہ بوندا باندی تھی
جو اچانک شروع ہو گئی تھی شہاب کے قدموں میں اب تیزی آگئی وہ تقریبا بھاگتے ہوئے گھر کی طرف جا رہا تھا
مگر راستہ اچانک لمبا ہوگیا تھا گھر کے دروازے پر پہنچتے ہی وہ چوںکا سامنے والے گھر کے سامنے ایک بہت لمبا
اس کو دیکھ کر شہاب لرز اٹھا وہ انسان بری طرح ہل رہا تھا شہاب کے دانت سردی اور خوف سے
بجنے لگے وہ قریب گیا مگر زیادہ قریب نا جا سکا اور پلٹا تو چونکا کہ گھر اب اسکی نظر سے غائب ہو چکا تھا وہ اپنے ہاتھ
سینے پر باندھے بھاگا وہ چیختا جا رہا تھا م م م م مما مما مما
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بھاگتے بھاگتے ایک ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں پر بھت سے درخت تھے وہ ان درختوں کو اب دیکھ سکتا تھا بارش اب
اتنی تھی کہ وہ صحیح سے دیکھ سکتا تھا وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیاوہ بری طرح رو رہا تھا مما کو پکار رہا تھا
اچانک اسکی نظر ایک چھوٹے آدمی پر پڑی وہ آدمی اس سے قریب ہو کھڑا تھا چند ہی لمحوں میں وہ دیکھتے دیکھتے
غائب ہو گیا شہاب جو تھوڑا پر سکون ہوا تھا پھر ڈر گیا اور تیزی سے بھاگنے لگا بھاگتے بھاگتے اس کے پائوں سے ایک چپل اتر گئی وہ ایک چپل پائوں میں ڈالے بھاگتا جا رہا تھا
بھاگتے ہوئے ایک بار وہ گرا تو اسکا دم ہی جیسے نکل گیا
ارے! اسکا دل اچھل کر حلق میں آگیا تھا
اسکا پائوں کسی نے پکڑ لیا تھا اور اب ہلکی بارش میں وہ اس بھوت سے التجا کر رہا تھا اللہ کا واسطہ میرا پائوں چھوڑ دو
اللہ رسول ص کا واسطہ دیا مگر وہ بھوت تو لگتا تھا کہ بہت ہی برا تھا وہ مان کر ہی نہی دے رہا تھا
شہاب تھک گیا تو اس نے سوچا کہ اب کیا فائدہ فریاد و بکا کرنے کا بھیک مانگنے کا اب کیا کروں کیسے جان چھڑائوں اپنی
وہ اب یہ سوچنے لگا پھر اس نے سوچا یہ بھوت جو بھی ہے اس کے منہ میں میرا پائوں ہے تو کیا ہوا چلو کوشش کرتا ہوں
تاکہ وہ میرا پائوں چھوڑ دے

اس نے اپنے ہاتھ سے پائوں چھڑانے کی کوشش شروع کردی وہ روتا جاتا ساتھ ہاتھوں سے بھوت کا منہ بھی کھولنے کی
کوشش کررہا تھا اچانک اسکو لگا وہ آزاد ہو گیا اب وہ سکون سے بھاگنے لگا وہ چاہتا تھا اس منہ کھول کر سوئے بھوت
سے جتنا دور ہو سکے چلا جائے تھک کر وہ ایک عمارت کے دروازے پر بیٹھ گیا اب اس سے بھاگا نہیں جا رہا تھا
بیٹے کون ہو تم؟؟؟؟ اک مہربان و شفیق و اچھی آواز اس کے قریب میں ابھری وہ سہم گیا اور
جیسے ہی اوپر دیکھا بے ہوش ہو کر گر پڑا
بھاگتے ہوئے ایک بار وہ گرا تو اسکا دم ہی جیسے نکل گیا
ارے! اسکا دل اچھل کر حلق میں آگیا تھا
اسکا پائوں کسی نے پکڑ لیا تھا اور اب ہلکی بارش میں وہ اس بھوت سے التجا کر رہا تھا اللہ کا واسطہ میرا پائوں چھوڑ دو
اللہ رسول ص کا واسطہ دیا مگر وہ بھوت تو لگتا تھا کہ بہت ہی برا تھا وہ مان کر ہی نہی دے رہا تھا
شہاب تھک گیا تو اس نے سوچا کہ اب کیا فائدہ فریاد و بکا کرنے کا بھیک مانگنے کا اب کیا کروں کیسے جان چھڑائوں اپنی
وہ اب یہ سوچنے لگا پھر اس نے سوچا یہ بھوت جو بھی ہے اس کے منہ میں میرا پائوں ہے تو کیا ہوا چلو کوشش کرتا ہوں
تاکہ وہ میرا پائوں چھوڑ دے
اس نے اپنے ہاتھ سے پائوں چھڑانے کی کوشش شروع کردی وہ روتا جاتا ساتھ ہاتھوں سے بھوت کا منہ بھی کھولنے کی
کوشش کررہا تھا اچانک اسکو لگا وہ آزاد ہو گیا اب وہ سکون سے بھاگنے لگا وہ چاہتا تھا اس منہ کھول کر سوئے بھوت
سے جتنا دور ہو سکے چلا جائے تھک کر وہ ایک عمارت کے دروازے پر بیٹھ گیا اب اس سے بھاگا نہیں جا رہا تھا
بیٹے کون ہو تم؟؟؟؟ اک مہربان و شفیق و اچھی آواز اس کے قریب میں ابھری وہ سہم گیا اور
جیسے ہی اوپر دیکھا بے ہوش ہو کر گر پڑا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔