twitter
rss


ارے بھائی جب تم بلال میں  اتنا کھو گئے تو تم تو محمد اور علؑی کو دیکھ کر تو لگتا ہے بیہوش ہی ہوجاؤ گے۔عابس ہنستے ہنستے بے حال ہورہا تھا۔
آ۔۔۔آں  ۔۔۔ہاں ۔۔۔محمدوہ بے یقینی سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔کک۔۔۔کیا ۔۔۔میں  یہ سعادت پا سکتا ہوں ؟ ہاں  کیوں  نہیں  وہ دیکھو سامنے کون ہے۔۔۔عابس ایک جانب اشارہ کیا ۔شبیب نے جب اس طر ف دیکھا تو اسے لگا کہ آسمانوں  کا سورج زمین پہ اتر آیا ہے وہ ایک دم بے خود سا آگے بڑھتا جارہاتھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ائے پیچھے ہٹ۔۔۔کسی نے اسے دھکا دیا تو وہ زمین پہ گر گیا لیکن وہ فوراً ہی اٹھ گیا اور پھر اسی جاب چل پڑا جہاں  دو سورج ساتھ ساتھ جلوہ گر تھے۔ائے لڑکے تیرے کپڑوں   سے خون نکل رہا ہےتجھے چوٹ لگی ہوئی ہے۔۔۔پیچھے ہٹ۔۔۔میرے کپڑے بھی نجس ہوجائیں  گے کسی نے اسے دوبارہ دھکا دیا تو وہ پھر زمین پہ گر گیا لیکن اس کو اس وقت کسی کا ہوش نہیں  تھا وہ جسم و جسمانیت سے بے پرواہ تھا اس کی دل کی تمنا اور روح کا قرار اس کے سامنے تھا بس وہ بے خود سا آگے بڑھتا چلا جارہاتھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایہاالناس۔۔۔۔۔آواز کیا تھی گویا روح میں  اترنے والا قرار تھا آسمانی ندا تھی یا بارش کا پہلا قطرہ یا بہار کا پہلا کھلتا ہوا پھول۔۔یا پھر بلندی سے گرنے والے جھرنے کی طرح پاک و پاکیزہ آواز تھی ،وہ جہاں  تھا وہیں  جم کر رہ گیا۔ایہالناس۔۔۔۔ساری تعریفیں  اس اللہ کے لئے ہیں  جو اپنی یکتائی میں  بلند اور اپنی انفرادی شان میں  کے باوجود قریب ہے۔۔۔۔۔۔وہ ایک ایک لفظ گویا  اس کی روح پہ نقش ہو رہا تھا۔وہ ہمہ تن ایک ایک لفظ سن رہا تھا۔ایہاالناس تقویٰ اختیار کرو، قیامت سے ڈرو کہ اس کا زلزلہ بڑی عظیم شے ہے، موت ، حساب ،میزان ، اللہ کی بارگاہ کا محاسبہ ، ثواب اور عذاب سب کو یاد کرو کہ وہاں  نیکیوں  پر ثواب ملتا ہے، اور برائی کرنے والے کا جنت میں  کوئی حصہ نہیں  ہے۔وہ کہہ رہے تھے اور اس کے آنکھوں  سے آنسوؤں  کا سمندر جاری ہو رہا تھا۔کیا میں  نے تم لوگوں  کے نفسون پر اختیار رکھتا ہوں ؟ جی ہاں ۔۔۔جی ہاں  ۔۔۔جی ہاں  کی صدائیں  اٹھنے لگیں ۔
تو پھر یاد رکھو۔۔۔۔وہ حیرت سے اوپر دیکھنے لگا کہ کیا یاد رکھنے کا حکم دیں  گے جسے وہ دل و جان سے قبول کرے گا۔
یاد رکھو جس جس کا میں  مولا ہوں  اس کے آج سے یہ علی ؑ بھی مولا ہیں ۔۔۔یہ کہہ کر حضرت محمد مسکرائے تو لگا کہ چاروں  جانب پھول کھل اٹھے ہوں  اور وہ جھکے جس طرح ہلال عید جھکا ہوتا ہے اور جب سیدھے ہوئے تو انہوں  نے علؑی کا ہاتھ تھام رکھا تھا ان دونوں  کی طرف نگاہ اٹھاکر دیکھنا مشکل ہورہا تھا۔اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ نگاہ اٹھائی تو سورج نے ایسا لگا کہ روشنی اور نور کا جھماکا ہورہا ہواس کی نگاہیں  نور کی شدت کی وجہ سے جھک گئیں  وہی نورانی آواز آئی ’’ اے اللہ جو علی سے دوستی کرے تو اس سے دوستی کر اور جو علی سے دشمنی کرے تو اس سے دشمنی کر جو علی کا ساتھ دے تو اس کا ساتھ دے جو علی کو چھوڑ دے تو اسے چھوڑ دے۔آپ لوگ لائن لگا کر علی کو مولا اور ولی بننے کے اعلان کی مبارک باد دیجیئے ۔۔اورعلی کو امیرالموئمنین کہہ کر سلام کیجئے۔۔۔اور کہیئے کہ اور کہیئے کہ اے اللہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔۔۔۔اور کہو کہ شکر ہے اے پروردگار۔۔۔آواز دوستانہ تھی۔سب لوگ بھاگنے لگے سورج کی جانب لیکن اس کے قدم گویا تھم گئے ہوں  بس اسکی آنکھیں  اس وقت اپنی پیاس کی سیرابی کر رہپی تھیں ۔ارے تم یہاں  ہو ادھر آؤ لائن لگاؤ میرے ساتھ امیرالموئمنین کو مبارک باد دینے کے لئے۔۔۔عابس پتہ نہیں  کہاں  سے اسے ڈھونڈتا ہوا آگیا تھا۔۔اس پہ بے خودی کی کیفیت تھی۔ چلو لائن لگائیں ۔۔۔۔عابس نے  اسے ایک طرف کو کھینچا ۔میں  رسولِ خدا سے ملنا چاہتا ہوں ۔۔ شبیب نے اس جانب نگاہ جماتے ہوئے کہاجہاں  رسولِ خدا کھڑے ہوئے تھے۔نہیں  میرے بھائی آج ان سے ملاقات مشکل ہے آج ابوذر، سلمان محمدی،میثمِ تمار ،مقداد ،بلال،اور دوسرے بزرگ ان کے پاس کسی کو جانے نہیں  دیگے۔ پہلے امیرالمومنین کو مبارکباد دو پھر آکر زیارت کرلینا وہ بہت مہربان، رحم دل اور مہمان نوازاور دوستوں  کے دوست ہیں ۔چلواب لائن میں عابس نے اسے لائن میں  لگا دیا وہ جس جگہ لائن میں  کھڑا ہوا تھا وہاں  سے وہ ایک طرف تو رسولِ خدا کی زیارت کر رہا تھا اور دوسری جانب اسے خیمے میں  سے امیرالموئمنیؑن کا چہرہ اقدس کا نور جھلکتا صاف دکھائی دے رہا تھا۔
لائن آگے بڑھ رہی تھی اور اس کا دل تیز تیز دھڑک رہا تھا جوں  جوں  اسکا نمبر آگے آرہا تھا سورج کا ہالا بھی بڑھتا جارہا تھا۔ اچانک اسے ایک جھٹکا لگا اور وہ توریکی میں  ڈوبتاچلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگیا آگیا۔۔۔۔۔۔ایک آواز کانوں  میں  گونجی اور وہ ایک جھٹکے سے اٹھ گیا۔
مجھے بٹھائیں  جلدی کریں ۔۔۔عباس نے پرجوش آواز میں  کہو تھا۔
اور نے سر گھمایا سر مشین میں  عباس کو لٹا کر بٹن سیٹ کر ہے تھے ڈائل گھما رہے تھے۔پھر الٹی گنتی شروع ہوئی اور عباس غائب ہوگیا۔
مجھے کہوں  واپس بلایا میں  تو امیرالموئمنین کے خیمے کے بالکل پاس پہنچ گیاتھا۔ شبیب کی ہچکیاں  نہیں  رک رہی تھیں ۔
اصل میں  مشین میں  کچھ خرابی کا امکان ہو رہا تھا اس لئے میں  نے سوچا کہ سب ہی زیارت کا شرف پالیں ۔ر نے چشمہ اتار کر جیبمیں رکبھ لیا اور ایک جانب بیٹھ گئے۔مگر وہ روئے جا رہا تھا۔
اچھا ٹھیک ہے اگر سب نے زیارت کر لی تو تمہیں  دوبارہ موقع بھی دیں  گے۔سر نے اسے دلاتے ہوئے کہا ۔
وہ اور رونے لگا مگر اب اسکا یہ رونا غم یا افسردگی کا نہیں  بلکہ خوشی کا تھا۔وہ زیرِ لب شکر کی تسبیح پڑ رہا تھا۔

0 comments:

Post a Comment