twitter
rss




بسم اللہ الرحمٰن الرحیم٭
                                         وہ  ولیمہ تھا یاد گار                             Qist :2


تحریر: شبیہ زہرا جعفری


اگلے دن جو ولیمے میں نہیں آسکے فون کر کے معزرت بھی کرتے رہے اور سب نے ایک بات ضرور کہی کہ اگر اس بابرکت ولیمے کا کچھ کھانا بچ گیا ہوتو۔۔۔۔تھوڑا سا ہی سہی ہمیں ضرور دے دیں ۔۔۔اور ۔۔ ہم نے سب کو بتا دیا کہ کیا کیا بچا ہے۔۔ پھر تو گویا ہمارے گھر آنے والوں کا تانتا بندھ گیا میرے شوہر بولے’’ سیما اسے تم چوتھی سمجھ لو‘‘
جسے ہم زیادہ سمجھ رہے تھے شام تک اسکا ایک دانہ نہیں بچا۔نہ بریانی، نہ قورمہ ، نہ ہی بسکٹ، نہ نمکو، نہ آم ،نہ ٹافیاں نہ پھول نہ گجرے نہ کولڈ ڈرنک اور نہ ہی کچھ اور!نانا نانی کے بقیہ سارے عزیز جو ہفتہ کو کسی وجہ سے ولیمے میں نہیں آسکے دوسرے دن آگئے۔ یوں جو تھوڑی بہت خلش ان کے نہ آنے کی تھی وہ بھی دور ہوگئی۔اور سب آنے والے پوچھتے رہے کہ وہاں کیا کیا ہوا اور کون کون آیا۔اس طرح ہمارے گھرمیں دوسرے دن بھی شادی والے گھر کی طرح سے گہما گہمی رہی۔ اور ایک اور پر لطف دن ایک ایک لمحہ خوشیاں بکھیرتاھوا آخر گزر ہی گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ولیمے کا چرچا پورے خاندان میں ہوگیا تھا۔ سب مثالیں دے رہے تھے کہ اولاد ہو تو ایسی! اولاد کی اولاد ہو ایسی!اس ولیمے سے مجھے بے انتہا فائدے خاندان میں نظر آئے۔جتنے بھی بچے تھے پہلے سے زیادہ بڑوں کا کہنا ماننے لگے اور ان کی عزت و احترام کرنے لگے۔ اور دوسرا فائدہ یہ اور سے سے بڑا فائدہ یہ دکھائی دیا کہ اب خاندان کے بوڑھے جو پہلے کہتے تھے کہ ہائے یہ آج کے بچے! شیطان ہیں شیطان! اب وہ بچوں کو پیار و محبت دینے لگے تھے کہ کیا پتہ ان میں سے کون ان کے مرنے کے بعد ان کے کام آجائے۔۔ کیا پتہ کون ان کی زندگی میں ان کا مان بن جائے !اب بچوں کو عزت اور پیار مل رہا تھا تو وہ بھی پہلے سے زیادہ مہذب ہوگئے تھے۔انکو یہ بات ذہن نشین ہوگئی تھی کہ صرف والدین ہی نہیں بلکہ انکو والدین کے والدین کا بھی وقار بلند کرنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی اپنے طریقے سے جیسے پہلے تھی گزر رہی تھی ۔ میں مدرسے میں پرھاتی تھی۔جی ہاں یہ وہی مدرسہ ہے جس نے مجھے اسکول چھوڑنے کے بعد دوبارہ زندگی دی تھی۔ یہ مدرسہ میرا مان اور میری آبرو بڑھا گیا تھا۔ میں آج بھی درس دے کر گھر جانے کے لئے تیار تھی کہ مجھے کہا گیا کہ میڈم آپ ابھی مت جایئے گا۔ایہ کوئی نئی بات نہیں تھی مجھے عموماًکلاس کے بعد روک لیا جاتا تھا کچھ اہم اعلانات کرنے ہوتے تھے یا شیڈول ،یا پھر امتحانات کی تاریخوں کا اعلان یا پھر نتیجوں کا نکلنا۔ بہت سارے کام ہوتے تھے۔ اس لئے میں خاموشی سے کرسی پہ بیٹھ گئی۔
جب سارے طالبات چلی گئیں تو نجھے آفس میں بلوایا گیا۔ میں جاکر وہاں بیٹھ گئی۔
میڈم ہم نے ؤپ کو زحمت دی اس کے لئے معزرت!
ارے کوئی بات نہیں۔میں نے ان سب کے چہروں پہ نگاہ کرتے ہوئے کہا۔
میڈم ہم نے آپ کو اس لئے بلایا ہے کہ اس سال آپ حج پہ جارہی ہیں۔
حج پہ؟ نہیں ۔۔۔ مجھ پہ حج واجب نہیں ہے۔ میں نے نفی میں سرہلایا۔
ارے نہیں۔۔ میں کہاں حج پہ جاسکتی ہوں۔مجھے اپنا معاشی بیک گراؤنڈ معلوم تھا اس لئے کسی خوش فہمی میں نہیں تھی۔
ارے میڈم ۔۔۔ آپ جائیں گی حج پہ ۔۔ مدرسہ آپ کو بھیج رہا۔۔۔آپ صاحبِ استطاعت ہوچکی ہیں۔ انہوں نے ملکوتی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
کک۔۔۔۔۔۔کک۔۔۔۔۔کیا۔۔۔۔؟ میں گنگ رہ گئی۔۔۔۔جہاں تھی وہیں کی وہیں رہ گئی۔۔۔م۔۔مم۔۔۔۔میں۔۔۔۔اور۔۔۔ حج۔۔۔ پہ! بمشکل میرے ہونٹوں سے جملے ادا ہوپا رہے تھے۔
آپ چاہیں تو گورنمنٹ اسکیم کے تحت اپنا فارم جمع کر دیں یا پھر پرائیویٹ جانا چاہیں تو وہ بھی ممکن ہے۔
معلوم نہیں وہ کیا کیا کہرہے تھے میں تو بس ایک ٹک انہیں دیکھ رہی تھی۔میں نے اٹھنا چاہا تو اٹھا ہی نہیں گیا۔ پاؤں سن ہو گئے تھے۔۔ اور جسم ساکت تھا،۔۔۔۔آنکھیں گویا کسی ایک نقطے پہ جاکر جامد ہوگئیں تھیں۔کس نے مجھ پانی پلایا کس نے مجھے کرسی سے اٹھایا مجھے کچھ نہیں پتہ تھا۔ میری یہ حالت کیوں ہوگئی تھی یہ میں آج تک نہیں جان سکی!
خدا کے حضور حاضری کے خیال سے خدا کے گھر میں جانے کے خیال سے! اس کے بلاوے کے خیال سے یا اس کے حضور اپنی کم مائیگی کے احساس سے!یا پھر شکرانے کے لئے کہ مجھ جیسی گناہگار کو بھی اس قابل سمجھا کہ اپنی درگاہ میں بلواوا بھیجا!پھر جو میری آنکھوں سے آنسو ٹپکنا شروع ہوئے تو مجھے معلوم ہی نہین ہوا کہ کب اور کیسے میں گھر آئی۔ میرے گھر والے بھی مجھے روتا دیکھ کر حیران ہوئے مگر جب انکو معلوم ہوا کہ میری حالت کیوں ہے تو بے ساختہ وہ بھی رو پرے کہ ان کے گھر سے انکی ماں پہ خدا کی نظرکرم پڑی ہے۔۔۔جب میرے بیٹے اور بیٹی اتنے اس خیال سے رو رہے تھے کہ ان کی ماں خدا کے گھر حاضری دے گی تو سوچیں کہ خود میرا کیا حال ہوا ہوگا! بس رو روکر خدا سے اپنے اور اپنے والدین کے گناہوں کی معافی ہی مانگے جارہی تھی اور اپنی کوتاہیوں اور اپنی لاپرواہیوں کو یاد کر کے نادم ہو رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ وہ بھی چلنے کا بندوبست کریں مگر ادھار قرض کر کے بھی اتنا پیسہ نہیں بن پارہا تھا کہ وہ جاسکتے اس لئے مجھے اکیلے ہی اس مہربان کے حضور جانے کی تیاری کرنی پڑی۔
مدرسے سے فون آیا تو میرے بیٹے نے موبائل میرے ہاتھ میں دے دیا۔
جی میڈم کیا سوچا آپ نے کیسے جائیں گی؟پرائیویٹ یا پھر گورنمنٹ اسکیم کے تحت؟
میں اپنے بھائی حسن کے ساتھ جاؤں گی۔۔۔جیسے ہی میں نے یہ جملہ کہا ایک دم میرے ذہن میں روشنی کا ایک جھماکا سا ہوا اور پھر مجھے یاد آیا کہ جب میں نے نانا اور نانی کا ولیمہ کیا تھا اس وقت میرے ذہن میں ایک جملہ خود بخود آگیا تھا۔۔۔کہ اگر میں حج پہ گئی تو اپنے بھائی حسن کے ساتھ ہی جاؤں گی۔۔۔۔اوہ میرے خدا! میں ششدر رہ گئی کہ میرے حج کا تعلق میرے نانا اور نانی کے ولیمے سے کتنا ہے! کیا نانا اور نانی نے اپنے ولیمے کے دن مجھے دعا دی تھی! کہ میں بھی حج پہ جاؤں!میں بھی اسی سعادت سے اسی عبادت سے سر فراز ہوجاؤں! میری آنکھیں نم ہو چکی تھیں اور آنسو میرے گالوں پہ بہہ رہے تھے۔میں سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اس سطائے خدا وندی پہ نانا اور نانی کے لئے کیا کروں!
جی میڈم آپ نے بتایا نہیں؟ موبائل فون سے آواز ابھر رہی تھی۔۔۔میں دوبرہ ہوش کی دنیا میں آگئی۔۔۔ج۔۔۔جج۔۔۔جی ۔۔کیا ہوا۔۔ میں نے دوپٹہ کے پلو سے آنکھیں صاف کیں اور فون دوبارہ کان سے لگا لیا۔
میں پوچھ رہی تھی کہ اماؤنٹ آپ کو دوں یا ڈائریکٹ آپ کے بھائی کو؟ مدرسے کی منتظمہ نے پوچھا۔
آن۔۔۔۔ہاں۔۔ آپ ڈائریکٹ ان کو دے دیجئے گا۔میں نے آہستہ سے کہا ٹھیک ہے میں ان کودے دوں گی آپ مجھے ان کا پتہ اور فون نمبر میسج کے زریعے بھیج دیجئے گا۔۔۔منتظمہ نے پھر کہا۔
جی بہت بہتر ہے۔۔۔ میں نے انکا شکریہ ادا کیا اور فون بند کر دیا۔
میری سمجھ سے یہ سب باتیں بالاتر ہو رہی تھیں۔ نانا اور نانی کی طرف سے حج ادا کر کے حسن ولیمے کے لئے کسی بھائی کو بھی کہہ سکتا تھا۔۔۔ لیکن اسکا ڈائریکٹ میرے پاس آنا اور میرا بغیر سوچے سمجھے ولیمے کے لئے ہاں کر دینا! توفیقِ خدا وندی کے سوا کچھ بھی نہیں لگ رہا تھا۔ 
میر ا سر سجدے میں جکھک گیا تھا کہ خدا یا تو نے مجھے منتخب کیا تیرا شکریہ! 
کس طرح خدا کے بندوں کا تعلق خدا نے اپنی توفیقات سے جوڑ دیا ہے ! جو ہمیں فوری سمجھ میں نہیں آتے لیکن بندوں کے حقوق ادا کرنے پہ صرف محسوس ہی نہیں کئے جاسکتے بلکہ اس کا فوری بدل دنیا میں ہی نظر بھی آتا ہے۔۔۔کس نے کہا کہ دنیا نقد اور آخرت ادھار ہے۔۔۔ دیکھ لیں مجھے تو سب کچھ آخرت کی چیزیں نقد ہی نقد نظر آرہی ہیں۔میرا رواں رواں اس کی حمد و ثنا میں مشغول تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی آپ تیاری نہیں کر رہی ہیں جانے کے لئے ۔۔۔ میری بہو نے مجھے لیٹے دیکھ کر میرے سرہانے بیٹھ کر کہا۔
بیٹا میں اس کی اس نعمت کی بالکل بھی حقدار نہیں تھی اس نے اتنی بڑی نعمت دی ہے تو میں اس کا شکر ادا کرنے میں اپنا زیادہ وقت گزارنا چاہتی ہوں بجائے اس کے کہ میں بازاروں کے چکر لگاؤں۔۔میں نے اٹھتے ہوئے کہا ۔
لیکن امی احرام ، احرام کی چادر اور دوسری ضرورت کی چیزیں اور سفید سوت یہ سب نہیں خریدیں گی یہ تو وہاں کے لئے لازمی ہے۔
ہاں بیٹا لے آؤں گی لیکن ابھی تو وقت ہے نا تو میں اس کی مناجات کی لزت اٹھالوں جب تک۔
امی آپ کی جاننے والی آئی ہیں۔ میری دوسری بہو نے آواز دی۔انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھاؤ میں آتی ہوں۔ میں نے دوپٹہ اٹھایا اور سر پہ رکھ کر بستر سے نیچے اتر آئی۔۔
میں ڈرائنگ روم میں آگئی۔وہاں میری پرانی جاننے والی آئی ہوئی تھیں ان کو کہیں سے معلوم ہوا تھا کہ میں حج پہ جارہی ہوں وہ ملنے چلی آئیں تھیں میرے لئے دو سفید چکن کے سوٹ لائیں تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ یہ میں احرام کے طور پہ لائی ہوں۔پھر وہ پورا ہفتہ ہی کسی نہ کسی ملنے والے کی آمد ہوتی رہی اور ہر آنے والا کچھ نہ کچھ لا رہا تھا۔یوں مجھے بازار جانے کی ہر قسم کی جھنجھٹ سے نجات ملتی جارہی تھی۔یہاں تک کہ اس سفر مبارک کے لئے مجھے اس قدر خدا نے اپنے بندوں کے زریعے نوازا کہ واپس آنے تک کتنی ہی چیزیں مجھے دوسروں کو بھی بانٹنا پڑیں۔یہاں تک کہ سفر کے دن تک اتنا ناشتہ مدرسے والوں نے بھیجا ۔میں خدا کی کس کس نعمت کا شکر ادا کرتی !حج کے مبارک سفر پہ جانے کے لئے ایک پیسہ تک میں نے اپنے شوہر سے نہیں مانگا کہ مبادا ان کے پاس نہ ہو اور وہ شرمندہ ہوجائیں۔ اور خدا نے میری اس مشکل کو یوں آسان کیا کہ جتنے بھی عزیز ،رشتہ دار اور جاننے والے مجھ سے ملنے آئے انمیں سے ہرکسی نے چائے پانی کے لئے پیسے دیئے! یوں میرے اس مبارک سفر کی ایک ایک پائی خدا ئی انعام بنتی گئی تھی۔
میں جتنا بھی اس کا شکر ادا کرتی اس کی نعمت کا اتنا ہی کم تھا۔بس دن رات میں چونکہ اسکی مہمانی کا لطف اٹھا رہی تھی اس لئے اس سے مناجات اور باتیں کرنے میں لذت بڑھتی ہی جارہی تھی اور اسکی عطاؤں میں اجافہ ہی ہو رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالآخر وہ دن بھی آگیا جب میں خانہ خدا کے سامنے کھڑی تھی۔میں تھی اور میرا خدا!
کس قدر لذت اور مزا ہے خدا کے گھر کی زیارت میں اس بات کا انداذہ تو خدا کے گھر کے پاس جاکر ہی ہوتا ہے۔کبھی میں رات کو تنہائی میں خدا سے باتیں کرنے اس کے گھر آجاتی اور اس کے ایک ایک کونہ کو چھو ،چھو کے دیکھتی کہ خدا یا تیرے گھر میں یہ لذت یہ مزا یہ روحانیت یہ وقار یہ تسکین یہ دل کا قرار کتنا ہے کاش مجھے ساراکا سارا مل جائے! کبھی اس خدا کے گھر کی ایک ایک انٹ پہ نگاہ کرتی اور خدا سے کہتی کہ اے خدا آخر اس گھر میں کیا راز ہے کہ حسینؑ پلٹ پلٹ کر اسے دیکھتے رہے! کتنے حج حسینؑ و حسین ؑ نے پیدل کئے ہیں آخر تیرے گھر میں اے خدا کونسا خزانہ جس کے لئے مولا علی راتوں کو جاگ جاگ کر تیرے گھر کا طواف کرتے رہے!کاش وہ راز میں بھی جان جاؤں! کاش وہ خزانہ میں بھی ڈھونڈ پاؤں! دل ہی نہیں چاہتا تھا کہ اس گھر سے ایک لمحہ کے لئے بھی جدا ہو جاؤں جس کی یاد میں میرے نبئیِ مرسل بے قرار رہتے تھے۔جس کا طوف کرنے کے لئے رسولِ خدا نے خواب بھی دیکھا جسے خدا نے فتحِ مکہ کے وقت سچ کر دکھایا!کبھی میں خانۂ کعبہ کی دیواروں سے لپٹ جاتی کبھی اس کا غلاف پکڑ کر رونے لگتی عجیب حالت تھی۔۔ جیسے ایک بچہ صدیوں سے ماں سے جدا تھا اور اب مہربان ماں کی آغوش میں آگیا ہو!
سارے افعالِ حج بجا لاتے ہوئے جب میں سعی کر رہی تھی تو اس وقت میں نے دل میں سوچا کہ خدایا آخر کیا راز ہے کہ اس سفر پہ میں تنہا آئی ہوں جبکہ آج تک کوئی سفر میں نے اکیلے نہیں کیا۔ شادی کے بعد سے لیکر اب تک ہر سفر میں نے اپنے شوہر کے ساتھ کیا لیکن یہ سفر تنہا! پتہ نہیں کیوں میرا دل اس وقت تنہائی کا شکوہ خدا سے کر رہا تھا۔اسی لمحے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کسی نے میرے کان کے پاس کہا’’ کیا بھول گئیں کربلا میں جو دعا کی تھی کہ اے خدا اب مجھے اپنی عبادت کے لئے اکیلے بلانا‘‘ یہ آواز کیا تھی روشنی کا ایک بم تھا جو میرے کان کے پاس پٹھا اور میں ششدر رہ گئی ۔
پلٹ کر آس پاس دائیں بائیں ہر جگہ دیکھا مگر کہنے والا دکھائی نہیں دیا۔مگر جو کہا وہ حقیقت تھا۔مجھے یاد آگیا کہ اس سفر سے پہلے میں سفرکربلا پہ گئی تھی جہاں میرے ساتھ میری والدہ بھی تھیں اور میں اپنی والدہ کو زیارت کروانے لے جاتی تھی ۔ انکو وضو کروانا انکو نماز کے لئے لے جانا پھر ان کی چپلوں کا خیال پھر انکی واپسی کا دھیان رکھنا انکے کھانے پینے انکے کپڑوں کی صفائی انکے لئے کپڑوں کی تبدیلی! مجھے ان کے کاموں کے کرنے میں ہر گزعار نہیں تھا۔ میں نے انکی خوب خدمت کی یہ سوچ کر کہ زائرہ امام حسینؑ بھی ہیں ،میری ماں بھی ،ایک بزرگ بھی اورایک مومنہ بھی!لیکن ان تمام باتوں کا خیال رکھتے ہوئے خود زیارت کرناانتہائی مشکل کام تھا۔ادھر میں کتاب کھولتی ادھر امی واپسی کا مطالبہ کرتیں۔ ادھر میں حرمِ امام حسیؑ ن جانا چاہتی تھی اور وہ جنابِ عباس ؑ کے روضے پہ جانے کی فرمائش کردیتیں تھیں۔ میں نمازِ زیارت کی نیت کرنا ہی چاہتی تھی کہ وہ زیارت پڑھانے کا کہہ دیتیں تھیں۔میں انکو ساتھ لئے زیارت کروانے لے جاتی رش کی بناء پہ انکو اکیلا نہیں چھوڑ سکتی تھی کہ وہ خود زیارت کرلیں انکا ہاتھ پکڑ کر انکو زیارت کروانی پڑتی تھی ،میں نے انکی ہر خدمے خندہ پیشانی سے کی تھی۔ مگر جس دن ہم نے کربلا سے واپس جانا تھا تو میں نے اس وقت خدا سے دعا کی تھی کہ ’’اے اب مجھے اپنی عبادت کے لئے اکیلے بلانا‘‘
اور میں اس وقت سفر حج پہ اکیلی تھی!خدا سے راز و نیاز کر نے کے لئے!
لیکن میں سوچ رہی تھی کہ آخر یہ جملہ اس وقت یاد کس نے دلایا! اور یہ جملہ یاد دلانے کا مقصد آخر کیاتھا؟
شاید جس نے یاد دلایا اس کے کچھ اور مقاصد بھی ہوں لیکن جو مجھے اس وقت بات سمجھ میں آئی وہ یہی تھی کہ میں نے کربلا میں اپنی والدہ کی جو خدمت کی تھی اسی خدمت کا نتیجہ تھا کہ آج میں عبادت کی اصل لذت سے آشنا ہو رہی تھی۔واقعی ماں اور باپ کی خدمت بھی خدا کے پاس انسان کو کیا مقام دلا دیتی ہے۔میں نے اس نورانی سفر کا آغاز حرم خدا سے کیا تھا اور اس کا انجام کیا تھا! اس کا تصور بھی میرے دل و روح کو معطر کر دیتا ہے۔
یقین کریں جب میں وہاں پہنچی تو دل کی کیا کیفیت تھی یہ بتانے کے لئے نہ جملے ہیں نہ الفاظ! بس اگر آپ کے دل میں انکی محبت ہے اور آپ ان سے عشق کرتی ہیں تو شاید میرے جذبات آپ کی بھی سمجھمیں آجائیں! جی ہان جیسے ہی میں سبز گنبد کے قریب پہنچی۔۔ تو دل بے قابو ہوگیا اور آنسو میری آنکھو سے ایسے رواں ہوئے جیسے تیز بارش کے قطرے زمین پہ گرتے ہیں۔۔ اسی طرح میری آنکھیں آنسؤں سے دل کا حال بیان کر رہی تھیں۔جیسے ہی چوکھٹ پہ پہنچی۔۔۔ میرا سر انکی چوکھٹ پہ جو جھکا تو پھر کئی گھنٹے گزر گئے مگر حسین کے نانا کے روضے کے صحن سے اٹھنے کا ہوش ہی نہ رہا۔کئی گھنٹوں بعد جب دل کو زرا سا خدا کی طرف سے سکون عطا ہوا تو میں نے سر اٹھایا تو دیکھا سارے عاشقانِ نبی پر یہی حالت طاری تھی۔راضہ پہ جاکر میرے لبوں پہ بس ایک ہی صدا تھی’’ یا حسینؑ ‘‘مجھے سارے ہی کربلا کے واقعے یاد آتے گئے اور میں حضورِپاک کو انکے لال ؑ کا پرسہ دیتی گئی۔بس جب تک ہم مدینے میں رہے ہر ہر چیز کو میں چھو کر پنجتنؑ کو محسوس کرتی رہی۔جب قافلہ سالار نے کہا کہ الوداعی رخصت کے لئے زیارت پہ جانا ہے تو ایسا لگا کہ کلیجہ پھٹ جائے گا ور میں یہاں ہی مر جاؤں گی بس وہ وقت تھاجب میں نے چیخ چیخ کر رونا شروع کردیا اور امام حسینؑ کی رخصت پڑھنے لگی۔کیسے مولاؑ آپ جدا ہوئے ہوں گے! کس طرح نانا کے روضے کو چھوڑا ہوگا۔یقین کریں جب ہم واپسی کے لئے بس میں بیٹھ گئے جب تک سب ہی زارو قطار رو رہے تھے۔
اور سب کے ہونٹوں پہ بس یہی پکار تھی کہ ’’اے خدا ہمارے امامؑ و بھیج دے تاکہ ہم اپنا مسکن روضہ رسولِ خدا بنا لیں۔
حج سے واپسی پہ لوگ سوغات لاتے ہیں۔۔ ہم بھی سوغات لائے تھے۔۔۔۔اشکِ جدائی۔۔۔آنکھوں میں بسی رسولِ خدا کے روضے کی شبیہ،خانۂ خدا کا لمس! کعبہ کی ٹوٹی ہوئی دیوار کا دیدار! خانۂ کعبہ کے پردے کے بوسے!تشنہ دلانِ زیارت کے لئے سفرِ حج کی روداد!جنت البقیع کے ٹوٹی ہوئی قبروں کا نوحہ! بنتِ نبی کی بوسیدہ قبر مہدی دوراں کے انتظار کا احوال، صفا و مرہ پہ بھاگتی ماں کو اس کے بچے کی سیرابی کا تحفہ جو حسین ؑ کے بچے کو تیر لگنے پہ نوحہ کناں ہے!زمزم آج بھی کہہ رہا ہے کہ
’’
اے کاش ملتی اگر اجازت تو اصغر کومیں پلاتا،
میں چشمِ دل سے اسے سیراب یوں کراتا، 
رہتی کبھی نہ پیاس پھراسے،
میں اسے اپنا خونِ دل اسے پلاتا

0 comments:

Post a Comment