بسم اللہ الرحمٰن الرحیم*
اے کاش
اے کاش
!
تحریر: شبیہ زہرا جعفری
امی میں باہر جا رہا ہوں۔حزیفہ نے عمامے کو سر پرلپیٹتے ہوئے کہا۔
جاؤ۔۔میری جان ۔۔۔مگر خیال رکھنا حالات خراب ہیں۔۔۔جلد واپس آنا اور دور مت نکل جانا ۔۔۔صالحہ نے تندور سے روٹیاں نکالتے ہوئے اسے دیکھا اور پھر آٹا ایک طرف کو رکھ کر سامنے رکھے تختے پہ لگی ہوئی روٹی کو تندور میں لگا کر پانی سے ہاتھ دھونے لگی۔
امی جان کیا آپ کو مجھ پہ بھروسہ نہیں ہے؟حزیفہ نے اپنی کمر کے گرد ایک کپڑا لپیٹتے ہوئے انکے قریب آکر انکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔
بیٹا میں جانتی ہوں کہ تم بنی مراد کے جواں مرد ابن عروہ کے پوتے ہو۔۔ اور تمہاری تربیت خود تمہارے بابا نے کی ہے ۔۔۔۔صالحہ نے روٹیاں ایک چھوٹی ٹوکری اٹھائی اس میں سے روٹی پوش نکالا اور اس میں روٹیاں لپیٹیں اور ان کو دوبارہ ٹوکری میں رکھ کر اوپر سے ٹوکری کا ڈھکنا ڈھک دیا ۔
جب آپ جانتی ہیں کہ بہادر باپ کا بہادر بیٹا ہوں تو آپ کیوں ڈرتی ہیں؟ اس نے صالحہ کے گلے میں بانہیں ڈال کر ان کے کان میں کہا۔
میں اس وجہ سے نہیں ڈرتی کہ تم مر نہ جاؤمیرے مولاحسینؑ نے کہا ہے کہ میں موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو اذیت سمجھتا ہوں۔صالحہ نے اسکے گال پہ بوسہ لیااور اٹھ کرروٹیوں کو ٹوکرے کو سر پہ رکھ کر کمرے کی جانب بڑھ گئیں۔
تو پھر میرے لئے آپ کس چیز سے ڈرتی ہیں؟ حزیفہ نے وہیں چیخ کر کہا، اور اپنی لمبی سی لکڑی اٹھالی اور ساتھ میں اس نے کھجوروں کے گھچھے ایک رومال میں باندھ کر کاندھے سے لٹکا لیا۔
میں تمہارے لئے اس بات سے ڈرتی ہوں کہ کوئی تمہارے دین کو نقصان نہ پہنچائے۔صالحہ نے کمرے سے نکل کر دروازے سے ٹیک لگالی ۔دیکھو بدن کی موت آسان ہے مرنا بڑی بات نہیں ہے، بڑی بات یہ کہ دین اور ایمان سے جسم خالی ہو جائے اور یہ بہت بڑی سزا ہے ابن عروہ کے خاندان کے لئے خود میرے لئے کیوں کہ میں علیؑ کی پیرو کار ہوں اور کسی صورت نہیں چاہوں گی کہ میرے دامن پہ کوئی داغ لگے صالحہ کے لیجے میں سختی تھی۔
ابھی تو آپ نے کہا کہ میری تربیت ہانی ابن عروہ کے جواں مرد بیٹے نے کی ہے تو کیا انہوں نے میرے دین کی آبیاری نہیں کی ہوگی؟ حزیفہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
ہاں کی ہے مگر صحبت اگر خراب مل جائے اور دوست اگر برے ہوں بے دین ہوں غیر تربیت یافتہ ہوں تو وہ ہمارے دین کی تباہی بن جاتے ہیں پھر ماں باپ کی تربیت اور خاندان کا وقار کچھ نہیں کرپاتا۔زہر تھوڑا بھی ہوتو انسان کو ختم کردیتا۔
امی میری پیاری امی میرے دوستوں میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے میرے دوستوں میں ایک تو حبیب ابن مظاہر کا بیٹا عبداللہ ہے ایک عابس بکری کا بیٹا کمیل ہے ایک میثم تمار کا بیٹا شبیب ہے اور ایک سلیمانِ صرد خزاعی کا بیٹا سعید ہے۔۔۔اس نے فوراً اپنے دوستوں کی فہرست گنوائی۔
ایک کو بھول گئے عبد اللہ جو عمر ابن سعد کا بیٹا ہے۔ صالحہ نے جھک کر اس کی آنکھوں میں دیکھا، کیا تم نہیں جانتے کہ ابن سعد کون ہے اور کیا ہے۔
جانتا ہوں امی اور عبد اللہ کو بھی ،اسے اس کے باپ نے کئی مرتبہ علؑ ی کا دم بھرنے پہ مارا ہے، تہہ خانے میں بند بھی کیا ہے اور اسے بھوکا پیاسا بھی رکھا ہے۔مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوا ۔۔
پھر؟۔۔پھر کیا ہوا؟انہوں نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔پھر امی اسے اس کے حال پہ چھوڑ دیا۔یقین کریں وہ کوفیوں کے عقیدوں سے بہت مختلف ہے۔وہ صرف مختار کا بھانجا ہے اور بس!
اچھا ٹھیک ہے جاؤ۔۔اللہ تمہارا محافظ ہو اور بنی کریم ﷺ کا تم پہ سایہ ہو۔صالحہ نے اٹھتے ہوئے کہا اور اسے باہر جاتے دیکھنے لگیں خدا کرے کہ عبداللہ ایسا ہی ہو۔۔جیسا کہ ۔۔۔۔جیسا کہ تم کہتے ہو اور اندر کی طرف مڑ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔****************۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارے تم نے آج بڑی دیر لگا دی۔کمیل نے حزیفہ کو آتے دیکھ کر کہااور اپنی لکڑی اٹھا کر پودوں پہ اگے پتوں کو مارنے لگا۔کیا ہوا تھا کیوں دیر کی۔
بس کچھ نہیں امی روٹی پکا رہی تھیں اورمیں ان کی مدد کر رہا تھا۔کیا شبیب ،عبداللہ اور ابن عمر نہیں آئے؟ حزیفہ نے کاندھے سے پوٹلی اتار کر زمیں پہ رکھ دی تھی اب وہ کمیل کے برابر میں آبیٹھا تھا۔
وہ آگئے ہیں بس ان کوزرا میں نے اس پہاڑی تک بھیجا ہے۔اس نے ہاتھ سے ایک جانب کو اشارہ کیا۔
کیا کوئی خبر ہے؟ حزیفہ نے زمیں سے پتھر اٹھاتے ہوئے اسے دیکھا۔
نہیں بس اتنا ہی معلوم ہوا ہے کہ وہ آرہے ہیں۔
مگر اتنے دن ہوگئے ہیں ابھی تک پہنچے کیوں نہیں؟ حزیفہ نے بے قراری سے پوچھا۔اوہو تم بھول گئے کہ وہ مدینہ سے آئیں گے راستہ طویل ہے وقت تو لگے گا ۔کوئی جادوئی سفر تو نہیں ہے کہ طویل راستے لمحوں میں طے ہوجائیں۔
مگر میرا دل چاہتا ہے کہ میرے پر لگ جائیں اور میں اڑ کر ان کے پاس جا پہنچوں۔حزیفہ نے دور آسمان پہ نگاہیں جماتے ہوئے کہا۔
لیکن ایک مسئلہ ہے اس جانب بھی تو سوچو۔۔۔کیا وہ ہمیں قبول کر لیں گے؟کمیل نے حزیفہ کی طرف دیکھا توحزیفہ بھی حیران ہوگیا اس طرح تو اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔کیوں نہیں قبول کریں گے وہ ہمیں؟حزیفہ نے حیرت سے کہا۔
کیوں کہ ان کو بڑے لوگوں کی ضرورت ہوگی نا۔۔۔۔ہم تو ابھی چھوٹے ہیں کمیل نے اپنے سر پہ ہاتھ مارکر کہا۔۔۔۔حزیفہ بھی سر پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا۔پریشانی کی بات تو تھی۔وہ جو اتنا بے قرار تھے ان کے لئے اگر انہوں نے ہی ان کا ساتھ قبول نہ کیا تو؟
ائے کیا بات ہے۔۔ یوں سر پہ ہاتھ رکھے کیوں چپ بیٹھے ہو آؤ لڑنے کی مشق کریں۔شبیب اور عبداللہ اور سعید نے ان کو یوں بیٹھے دیکھ کر آواز دی۔اور تینوں ان کے پاس آکر بیٹھ گئے۔کیا ہوا کچھ تو کہو۔۔۔ابن عمرنے ان کو ہلاتے ہوئے کہا۔۔۔۔اور جب حزیفہ نے اپنی دل کی بات بتائی تو ابنِ عمر ہنس دیا۔بھائیوں تم کیا نہیں جانتے کہ مسلم ابن عقیل کے ساتھ کون آرہا ہے؟
نہیں تو وہ دونوں حیران ہوکر ایک ساتھ کہہ اٹھے۔
ان کے ساتھ ان کے دو چھوٹے بیٹے بھی ہیں۔۔۔۔۔ابراہیم اور عون۔۔۔
کیا !!!وہ دونوں ایک دم حیران رہ گئے۔۔۔۔کیا کہا دوبارہ کہو۔۔۔۔حزیفہ نے ابن عمر کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔جی ہاں ان کے ساتھ ان کے دو بیٹے بھی ہیں اگر مسلم کو ہمارا ساتھ منظور نہ ہوتا تو اپنے دو بچے نہ لاتے۔۔۔جو بڑے ہیں وہ سب مسلم کی رکاب میں چلے جائیں گے اور ہم سب بچے ان کے بچوں کے ساتھ ہوں گے۔۔۔۔۔۔ابن عمر نے کہا، تو سب ایک ساتھ پکارے’’ انشاء اللہ‘‘۔۔تو چلو اب مشق کریں لڑنے کی؟ عبداللہ بن حبیب نے کہا تو سب نے اپنی اپنی لکڑیاں سنبھالیں اور لڑنے کی مشق کرنے لگے۔ اب ان کی مشق میں تیزی اور دل میں محبت کی شمع بھڑکی ہوئی تھی۔
َ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔**********۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی امی کہاں ہیں ۔۔۔۔ ۔
کیا ہوامیری جان کیوں شور کر رہے ہو؟ صالحہ نے اسے خود سے لپٹاتے ہوئے کہا۔
امی آپ کو کیا معلوم ہے کہ مسلم کے ساتھ کون آرہا ہے؟
آن ہاں۔۔۔کیا کوئی خبر ہے میری جان کے پاس؟صالحہ نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا اور اسے اپنے سامنے بٹھا لیا۔امی ان کے ساتھ ان کے دو بیٹے بھی ہیں جو ہمارے ہم عمر ہیں۔ ابراہیم اور عون۔ امی کتنا مزا آئے گا نا میں ان دونوں بچوں کا محافظ بن جاؤں گا اور انکی حفاظت کروں گا۔ اور ان کے ساتھ کھیلوں گا ان سے امام حسین اور امام حسن کی باتیں کروں گا۔۔۔ان سے بنی ہاشم کی باتیں پوچھوں گا۔حزیفہ کا لہجہ پرجوش تھا۔
ہاں بیٹا وہ کریم خاندان کے کریم بیٹے ہیں وہ جانتے ہوں گے نا کہ کوفے کے بچے بھی مولا کا ساتھ دینا چاہتے ہیں اسی لئے وہ بچوں کی خاطر اپنے بیٹے ساتھ لا رہے ہوں گے تا کہ بچے بھی اس عظیم نعمت سے محروم نہ رہ جائیں حسین کا ساتھ دینا اس وقت سب سے بڑی نعمتِ خدا ہے۔ میری جان قربان فاطمہؑ کے بیٹے پہ ۔۔۔صالحہ کی آواز میں درد کی اور محبت کی آمیزش تھی جس کی وجہ سے اس کی آواز میں لرزش پیدا ہوگئی تھی۔
امی میں بھی حسینؑ کے ساتھ ہوں حزیفہ نے اپنی امی کی آنکھوں کی نمی کو اپنی انگلیوں سے صاف کرتے ہوئے کہا۔
بیٹا جب تک جان میں جان ہے حسین سے جدا نہ ہونا ورنہ نہ دنیا کے رہو گے نہ آخرت کے۔۔۔ٹھیک ہے امی اب مجھے جلدی سے کھانا کھلا دیں حزیفہ نے صالحہ کو روتے دیکھ کر کہا،تو صالحہ اٹھ کھڑی ہوئیں اور اندر کی طرف بڑھتی چلی گئی۔آپ دیکھئے گا امی آپ کا بیٹا حسین پہ اپنی جان کیسے فدا کرتا ہے۔بس جنابِ مسلم کوآجانے دیں۔حزیفہ نے خود سے کہا اور زمین پہ بچھی ہوئی قالین پہ لیٹ کر آنکھیں بند کر کے خیالوں میں مسلم کو آتا دیکھنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔******************
دادا جانی بتائیں نا کہ مسلم کیسے ہیں؟حزیفہ نے ہانی کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
بیٹا وہ کریم ابن کریم ہیں وہ بہت بہادر ہیں۔ان کی تربیت علیؑ نے کی ہے، انہوں نے اپنا بچپنا علی اور حسن کے سائے میں گزارا ہے۔دادا جانی ان کا چہرہ کیسا ہے؟
بالکل امام علی کے بھائی عقیل کی طرح کچھ کچھ امام علی کی بھی شباہت آتی ہے ان میں۔۔۔
کیا واقعی؟ پھر میں ان کو دیکھوں گا تو ایسا لگے گا کہ میں علیؑ کو دیکھ رہا ہوں۔
ہاں بیٹا ایسا ہی ہے۔۔۔۔انہوں نے پیار سے اس کے بالوں پہ ہاتھ پھیرا۔۔۔۔۔اور ان کی آواز۔۔۔آواز ۔۔۔ کیسی ہے؟
ان کی آواز تو بہت خوبصورت ہے ایسا لگتا ہے کہ جیسے جنت کی ٹھنڈی ہوا چل رہی ہو لہجہ اتنا دھیما ہے جیسے نسیم صبح اور انداز بولنے کا ایسا ہے جیسے میرے امام حسینؑ بات کر رہے ہوں۔
اور دادا ان بنی ہاشم میں مسلم کیسے لگتے ہیں۔
بیٹا مسلم اور عباس دو شیر ہیں حسینؑ کے۔
شیر۔۔۔شیر۔۔۔یعنی دونوں بہت بہادر ہیں۔۔۔؟ حزیفہ نے اندازہ لگاتے ہوئے پوچھا۔
جی بیٹا ناصرف بہادر ہیں بلکہ علیؑ کی طرح شجاع بھی ہیں۔
اور چہرہ کیسا ہے ؟مطلب کہ دیکھنے میں کیسے لگتے ہیں؟۔۔۔۔بیٹا وہ دیکھنے میں بالکل چاند کی طرح لگتے ہیں اور بنی ہاشم کے وہ چاند ہی ہیں۔۔۔ دو تو چاند ہیں بنی ہاشم کے ایک عباس اور ایک مسلم۔۔۔ اور بیٹا بنی ہاشم میں ،سلم کا وقار اور مرتبہ بہت بلند ہے حسینؑ کے بعد اگر کسی کا مقام و مرتبہ ہے مردوں میں تو صرف مسلم اور عباس کا ۔۔۔۔اور حسینؑ نے اپنے خط میں بھی اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ’’مسلم کی بات میری بات ہے مسلم کی بیعت میری بیعت ہے۔‘‘،ہانی نے ایک گہری سانس لے کر کہا۔جاؤ دیکھو دروازے پہ کوئی آیا ہے۔ ۔وہ باہر آیا تو دیکھا کہ کوئی آدمی اس کے بابا سے بات کر رہا تھا وہ بھاگا بھاگا دادا کے پاس آگیا دادا ۔۔دادا جانی کوئی سلمان ابن صرد خزاعی کی طرف سے آیا ہے بابا اس سے بات کر رہے ہیں۔۔۔۔۔اس نے ایک ہی سانس میں سب کہہ دیا۔ ٹھیک ہے اب تم اپنی امی کے پاس جاؤ۔۔۔۔حزیفہ نے ان کے ہاتھوں پہ پیار کیا اور کھانے کے برتن اٹھا کر باہر چلا آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*************۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے دادا بتا رہے تھے کہ مسلم کی آواز حسینؑ کی آواز سے ملتی جلتی ہے اور چہرہ تو بالکل عقیل کی طرح ہے مگر علی کی شباہت آتی ہے ان میں۔۔۔۔اور پتہ ہے دادا بتا رہے تھے کہ مسلم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حزیفہ نے من و عن سب باتیں اپنے دوستوں کے گوش گزار کر دیں ۔۔۔۔اے اللہ جلدی سے آجائیں مسلم۔۔۔۔۔ سب نے دل سے دعا کی اور ایک بار پھر لڑائی کی مشق شروع کر دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****************
مسلم آگئے ہیں جلدی آؤ۔۔۔۔۔ حزیفہ نے ایک کے بعد ایک کو گھر سے بلا کر کان میں بتایا۔اور سب کے سب مسجد کوفہ کی طرف بھاگے۔آج ان کے دل کی کلی کھل اٹھی تھی۔وہ مسلم کی زیارت کرنے کے لئے بے چین تھے۔آج انکی گویا عید تھی ان کے قدم تیزی سے مسجد کی طرف اٹھ رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔**********۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے ہی حزیفہ نے مسجد میں قدم رکھا ہر طرف چاندنی چٹکی ہوئی تھی۔ اور حسینؑ کا چاند آج مسجد میں چمک کر روشنی دے رہا تھا۔اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ نگاہیں اوپر کی طرف اٹھائیں۔۔۔سامنے مسلم کھڑے تھے ان کی آواز مسجد میں گونج رہی تھی۔ جیسے ہی اس نے ان کی طرف دیکھا اسی لمحے مسلم نے اس کی جانب دیکھا اور دھیرے سے مسکرادیئے،اس کی دل دھڑکن تیز ہو گئی۔۔۔اور اس کا چہرہ سرخ ہوگیا۔اسکو دادا کی بات یاد آرہی تھی کہ ان کے چہرے پہ کچھ کچھ شباہت علیؑ کی بھی آتی ہے۔وہ مسلم کے چہرے سے علؑ ی کی زیارت کر رہا تھا حسن ؑ اور حسین کی آواز سن رہا تھا۔اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب سب تقریر سن کر اپنے گھروں کو چلے گئے وہ تو تصور میں حسینؑ کے چہرہ کے حُسن میں کھویا ہوا تھا۔لگتا ہے کہ آپ ہانی کے پوتے ہیں آپ بھی اب گھر جائیں۔حبیب ابن مظاہر نے اسکا کاندھا ہلایا تووہ چونک اٹھا مسلم ابن عقیلؑ حبیب کے ساتھ تھے۔اس کی دل کی دھڑکن اور تیز ہوگئی اس کا حاصلِ زندگی اتنا قریب تھا۔ اس کا دل چاہا کہ مسلم کے قدموں میں اپنا سر رکھ دے ’’ چلئے ‘‘ حبیب کی آواز سے وہ چونک اٹھا اور مسلم ابن عقیل باہر کی طرف بڑھ گئے اور وہ ان کے قدموں کے نشان پہ جھکتا چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔**************۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلم ابن عقیلؑ کے ساتھ ساتھ وہ ہر جگہ نظر آتے تھے۔ ان پانچوں نے آس پاس کے ہر فرد پہ نگاہ رکھی ہوئی تھی۔وہ مسلم ابن عقیل کی ایک ایک بات کو ذہن نشین کر لیتے تھے ان فرصت کے لمحات میں ان باتوں پر آپس میں بحث و مباحثہ کیا کرتے تھے۔اب وہ کھیل کود سب چھوڑ چھاڑ کر مسلم ابن عقیل کے بیٹوں کے ساتھ لگے رہتے کبھی امام حسنؑ کی باتیں پوچھتے اور کبھی حسین ؑ کے بارے میں پوچھتے اور دونوں بغیر کسی تھکن یا بوریت محسوس کئے ان کی علمی تشنگی بجھاتے رہتے ۔ابراہیم کے بولنے کا انداز تو بہت دلنشین تھا۔ وہ زیادہ ترعلی اکبر ؑ کی ہی باتیں بتا تا رہتا کہ علی اکبرؑ مہمان نواز ہیں۔ ان کا دستر خوان بہت مشہور ہے۔ وہ تمام حجاجِ کرام کی مہمان نوازی کرتے ہیں۔ان کا دروازہ ہر مسلمان کے لئے کھلا رہتا ہے۔ جب بھی کوئی مسافر مدینے آتاہے تو علی اکبر کے دسترخوان سے کھانا کھانا سعادت سمجھتا ہے۔ اس کی ایک وجہ ان کا شبیہ رسولِ خداﷺ ہونا بھی ہے۔علی اکبر جب گھر سے باہر نکلتے ہیں تو چہرے پہ نقاب ڈال لیتے ہیں کیونکہ وہ ہو بہو رسولِ خداﷺ کے ہمشکل ہیں تو لوگ ان کو دیکھ کر احترام میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور جب تک وہ راستہ سے نہ گزر جائیں لوگ سر جھکائے کھڑے رہتے ہیں۔اور اتنے نرم دل ہیں کہ اگر کوئی ان سے کچھ مانگے تو کبھی انکار نہیں کرتے اور ہم بھائی بہنوں کا تو مان ہیں جب ہمیں دیکھتے ہیں فوراً ہمیں گود میں اٹھا لیتے ہیں خوب پیار کرتے ہیں۔ ہم سب بہن بھائی ان سے ہی تو پڑھتے ہیں۔اور عون کو تو ہر وقت علی اصغرؑ کی یاد آتی رہتی ہے۔ جب بھی اس سے بات کرو کسی نہ کسی بات سے علی اصغرؑ کا تذکرہ ضرور نکال لیتا ہے اور فوراً کہتا ہے کہ علی اصغرؑ بہت پیارا ہے اتنا خوبصورت ہے کہ امی کہتی ہیں کہ وہ میرے چچا علی کی ہم شکل ہے۔ اس لئے سب گھر والے اس کا بہت خیال رکھتے ہیں اب تو وہ چھ مہینے کا ہو گیا ہوگا۔
حزیفہ ان سب باتوں کو سن کر سوچ رہا تھا کہ کیا مجھے بھی کبھی شبیہ رسولِ خداﷺ کی زیارت نصیب ہوگی؟کیا میں کبھی شبیہِ علؑ ی کو دیکھ پاؤں گا؟اور سب بچے دل ہی دل میں عہد کر رہے تھے کہ وہ حسین ؑ کا ساتھ دیگے چاہے کچھ بھی ہوجائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔***********۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر حالات نے ایک دم سے پلٹا کھایا۔ کوفہ اب کوفہ نہیں بلکہ جہنم بن گیا تھا۔قتل و غارت اور جلاؤ گھراؤ ہو رہا تھا۔پھر ایک دن مسلم بھی شہید ہوگئے،مسلم کے بچے قید کر دیئے گئے،ہانی بھی شہید ہوگئے اور ان کے گھر میں توڑ پھر کی گئی ان کے گھر کے باقی لوگوں کو محصور کردیا گیا۔،حبیب ابنِ مظاہرؑ بھی رات کی تاریکی میں غائب ہو گئے۔ سلیمان کا بیٹا سعید بھی ایک کاروان کے ساتھ بھیس بدل کر کربلا کی طرف چلا گیا۔عابس بھی حج پہ گئے تو واپس نہ آئے کمیل اپنے والد کے دوستوں کے ساتھ کربلا کی طرف چلا گیا۔
، عمر ابن سعد اپنے ساتھ اپنے بڑے بیٹے حفض کو لے گیا،عبداللہ کو بھی لے جانا چاہ رہا تھا لیکن عبداللہ نے سختی سے منع کر دیا کہ میں آپ کے ساتھ رسولِ خدا ﷺ کو ناراض کرنے نہیں جاؤں گا اور اگر آپ نے زبردستی کی تو اپنی تلوار سے اپنا سر کاٹ لوں گا یوں وہ گھر میں ہی رہ گیا۔لیکن میثمِ تمار کا پوتا شبیب اپنے فرار ہوکر کربلا کی طرف روانہ ہونا چاہتا تھا کہ اسے صحابی رسول ﷺ نے روک لیا تھا کہ تمہیں ایک عظیم کام کرنا ہے اس لئے تم کہیں نہیں جا سکتے۔۔
پانچوں میں سے اب صرف تین ہی بچے تھے شبیب ،حزیفہ اور عبداللہ ابن عمر ابن سعد۔حزیفہ بھی جانا چاہتا تھا کربلا مگر اس کو ہانی نے اپنی شہادت سے پہلے ایک نیا کام سپرد کیا تھا اور کہا تھا کہ بیتا یہی آپ کی ذمہ داری ہے دین کی طرف سے۔اور حزیفہ نا چاہتے ہوئے بھی کوفہ رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔********،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کیوں پیچھے رہ گیا مجھے بھی حسینؑ کے پاس جانا ہے، حزیفہ بلک بلک کر رو رہا تھا۔ میری جان اس طرح نہیں روتے مسلم ابن عقیل سے زیادہ تم کیا حسین ؑ کو چاہتے ہو وہ ہم سب سے زیادہ ان کو چاہتے تھے لیکن حکم امام تھا وہ اس لئے راہی کوفہ ہوئے۔ صالحہ اس کو تسلی دے رہی تھیں۔
میرے بیٹے تمہارے سپرد جو کام ہے تم وہ کرو۔۔۔۔ آج سے تمہارا کام شروع ہوگا۔اٹھو اورکچھ کھا پی لو تا کہ اپنی ذمہ داری ادا کرسکو۔۔۔۔جی اچھا ۔اس نے آہستہ سے کہا۔اور اٹھ کر ایک گھونٹ پانی کوزے سے پیا۔صالحہ نے شکر کیا اس نے اپنی زمہ داری پوری کرنے کا عہد کیا ہے ۔ ہانی کی شہادت کے بعد سے اس نے کچھ نہیں کھایا پیا تھا اب اسنے اٹھ کر پانی پیا اور چند کھجوریں کھائی تھیں۔
شبیب ،عبد اللہ اور وہ کھیلتے کھیلتے مسجدِ کوفہ کی پچھلی طرف نکل گئے تھے۔وہاں کافی دیر تک تینوں کھیلتے رہے اور پھرجب گلی سنسان ہوئی تو شبیب ان کو اپنے گھر لے آیا۔
تم آگئے ؟ میثمِ تمار کی زوجہ نے صحن میں رکھے ایک پلنگ کو ہٹاتے ہوئے کہا ۔
جی امی شبیب اپنی والدہ کی طرف بڑھا۔’’آؤ میرے ساتھ آؤ‘‘ وہ تینو کو لے کر گھر کی پچھلی سمت آگئیں۔ یہاں آؤ۔۔۔یہاں ۔۔۔ہاں یہاں سے کام شروع کرو۔۔۔انہوں نے ایک سمت اشارہ کیا۔تینوں نے ایک ایک کدال اٹھائی اور کام شروع کردیا۔تینوں نے خوب محنت کی اور چند گھنٹوں کے بعد ایک قبر نما گڑھا تیار کرلیا۔
بچوں کی مدد سے انہوں نے ایک بڑا سا تخت اٹھا کر اس گھڑے پہ رکھ دیا۔اب تم تینوں جاؤ کمرے میں آتی ہوں۔انہوں نے مٹی کو صحن میں برابر کردیا اور اس پانی چھڑک دیا۔
شبیب کے کپڑے نکال کر انہوں نے ان کو دیئے اور کہا کہ جاؤ نہا کر یہ پہن لو اور اسی طرح کھیلتے کھیلتے اپنے اپنے گھر چلے جاؤ لیکن کسی کو اس بات کا علم نہ ہو اور حزیفہ تم اپنی دادی کو بھیج دینا رات کو میرے گھر۔
جی اچھا، سب نے شبیب کے کپڑے پہن لئے اورباہر کی راہ لی تینوں کھیلتے ہوئے اپنے گھر چلے گئے۔
رات کو ہانی کی بیوہ میثم تمار کے گھر چلی آئیں۔دونوں نے رات کی تاریکی میں ہانی کی لاش کو ایک گلی سے اٹھا کر میثمِ تمار کے گھر لاکر غسل دیا اور خاموشی سے نمازِ جنازہ پڑھ کر دفن بھی کردیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*************۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن پھر وہ مسجدِ کوفہ کے پا س کھیل رہے تھے،اور پھر مسجد کے پیچھے چلے گئے جہاں شبیب کا گھر تھا اب پھر وہ ایک قبر کھود رہے تھے۔اس رات ان تینوں نے مسلم ابن عوسجہ کو لا کر غسل دیاشبیب کی ماں غسل کا طریقہ بتا رہی تھیں۔اور وہ غسل دے رہے تھے۔ آج کی نمازِ جنازہ میں وہ تینوں اور میثمِ تمار کی بیوہ شامل تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔************۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیسرے دن پھر انہوں نے ایک قبر تیار کی اور اس رات انہوں نے حنظلہ جو کہ غلامِ مسلم ابن عوسجہ تھے کو کوفہ کی گلیوں سے اٹھایا اور غسل دے کر دفن کر دیا۔
َََََََََََََ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*************۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تینوں لاشیں کہاں چلی گئیں؟۔۔۔۔۔۔۔کوفہ کے لوگ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے۔لیکن کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ لاشیں کہاں گئیں۔
شاید کوئی جانور لے گیا ہوگا۔ کسی خارجی نے مزاق اڑآتے ہوئے کہا اور ہنسنے لگا۔
لیکن جانتے ہویہ ایسے شہیدوں کی لاشیں تھیں کہ جانور تو جنور ہم نے ان پہ ایک مکھی بیٹھتے نہیں دیکھی،کسی راہ گیر نے ایک دم جواب دیا۔
ہاں بھئی ہم نے ان کی لاشوں سے بو تک نہیں سونگھی، مسلم کی لاش دیکھ لو کب سے ٹنگی ہوئی ہے کوفہ کے دروازے پر، بد بو تو بدبو اس پہ کوئی مکھی یا مچھر بھی نہیں بیٹھتا، کسی نے پاس سے ہی کہا۔
ہاں میں اس طرف سے گزرا تھا اس میں سے خوشبو کی لپٹیں اٹھ رہیں تھیں۔ایک آدمی نے کہا تو سب کا سر جھک گیا۔آخر کو بنی ہاشم کا جوان تھا۔ علیؑ کا شیر تھا کوئی معمولی بات تو نہیں ہے نا۔کسی نے تھکن زدہ لہجے میں کہا۔
ہاں مجھے اب دکھ ہو رہا ہے کیوں ہم نے ان کا ساتھ چھوڑا۔۔۔۔افسردگی کے ساتھ کسی نے کہا۔
ہر طرف سے صدائیں آہ و بکا اٹھنے لگیں۔۔۔مسلم کی لاش وہ کام کر رہی تھیں جو بڑے بڑے خطیب نہیں کر پاتے۔مردہ ضمیر اب زندہ ہو رہے تھے۔۔۔۔مسلم بھی حجتِ خدا کی حجت تھے اور ان کی لاش بھی حجت تمام کر رہی تھی۔سب کے ذہن جھنجھوڑ رہی تھی کہہ تمہارے مردے تو دفن ہوں لیکن رسولِ خداﷺ کا گھرانہ بے گوروکفن ہو!
اور حزیفہ ان سب سے الگ تھلک کوفہ کے دروازے کے پاس اس روزانہ آکر اس جگہ بیٹھ جاتا تھا جہاں مسلم کی لاش لٹکی ہوئی تھی۔اور وہ بار باراپنے سر کو اوپر اٹھا کر کہتاتھا کہ اے کاش !!!مجھے پتہ چل جاتا کہ کیوں مسلم کی لاش کیلئے کوئی پیشن گوئی نہیں کی گئی اس کو دفن کا کیوں اختیارنہیں دیا گیا۔وہ ان کی لاش کے پاس بیٹھکر اپنے دل کا خون ان کے خون کے پاس بہاتا رہتا۔
اسی طرح ایک دن وہ بیٹھا مسلم کی لاش پہ رو رہا تھا کہ ایک دم اس نے دیکھا کہ مسلم کے سر کو جنبش ہوئی ہے۔۔۔اور وہ ایک دم اٹھ گیا کہ اب شاید مسلم اس سے کچھ کہیں گے۔۔۔۔ کہ ناگہاں مسلم کے سر سے آواز آئی۔۔۔’’السلامُ علیکَ یا علی ابن الحسینؑ ‘‘ وہ چونک اٹھا اس نے ایک دم مسلم کے سر کو پکڑ لیا اور کہنے لگا۔۔۔۔اے مسلم مجھے بھی کچھ کہیئے ۔۔۔۔۔خدا را مجھے بھی کچھ کہیے۔۔۔اسے لگا کہ سر کو جنبش ہوئی اور ایک آواز آئی اے حزیفہ اگر خدمت کا سچا جذبہ ہے تو میری بہن زینبؑ کے لئے چادریں لے آؤ۔۔۔اور حزیفہ نے بغیر کچھ پوچھے کہ کہاں زینبؑ اور کہاں کوفہ گھر کی جانب دوڑ لگادی۔ بس اس کے ذہن میں ایک ہی جملہ گردش کر رہا تھا کہ ’’اے حزیفہ میری بہن زینبؑ کے لئے چادر لے آؤ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔************۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: شبیہ زہرا جعفری
امی میں باہر جا رہا ہوں۔حزیفہ نے عمامے کو سر پرلپیٹتے ہوئے کہا۔
جاؤ۔۔میری جان ۔۔۔مگر خیال رکھنا حالات خراب ہیں۔۔۔جلد واپس آنا اور دور مت نکل جانا ۔۔۔صالحہ نے تندور سے روٹیاں نکالتے ہوئے اسے دیکھا اور پھر آٹا ایک طرف کو رکھ کر سامنے رکھے تختے پہ لگی ہوئی روٹی کو تندور میں لگا کر پانی سے ہاتھ دھونے لگی۔
امی جان کیا آپ کو مجھ پہ بھروسہ نہیں ہے؟حزیفہ نے اپنی کمر کے گرد ایک کپڑا لپیٹتے ہوئے انکے قریب آکر انکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔
بیٹا میں جانتی ہوں کہ تم بنی مراد کے جواں مرد ابن عروہ کے پوتے ہو۔۔ اور تمہاری تربیت خود تمہارے بابا نے کی ہے ۔۔۔۔صالحہ نے روٹیاں ایک چھوٹی ٹوکری اٹھائی اس میں سے روٹی پوش نکالا اور اس میں روٹیاں لپیٹیں اور ان کو دوبارہ ٹوکری میں رکھ کر اوپر سے ٹوکری کا ڈھکنا ڈھک دیا ۔
جب آپ جانتی ہیں کہ بہادر باپ کا بہادر بیٹا ہوں تو آپ کیوں ڈرتی ہیں؟ اس نے صالحہ کے گلے میں بانہیں ڈال کر ان کے کان میں کہا۔
میں اس وجہ سے نہیں ڈرتی کہ تم مر نہ جاؤمیرے مولاحسینؑ نے کہا ہے کہ میں موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو اذیت سمجھتا ہوں۔صالحہ نے اسکے گال پہ بوسہ لیااور اٹھ کرروٹیوں کو ٹوکرے کو سر پہ رکھ کر کمرے کی جانب بڑھ گئیں۔
تو پھر میرے لئے آپ کس چیز سے ڈرتی ہیں؟ حزیفہ نے وہیں چیخ کر کہا، اور اپنی لمبی سی لکڑی اٹھالی اور ساتھ میں اس نے کھجوروں کے گھچھے ایک رومال میں باندھ کر کاندھے سے لٹکا لیا۔
میں تمہارے لئے اس بات سے ڈرتی ہوں کہ کوئی تمہارے دین کو نقصان نہ پہنچائے۔صالحہ نے کمرے سے نکل کر دروازے سے ٹیک لگالی ۔دیکھو بدن کی موت آسان ہے مرنا بڑی بات نہیں ہے، بڑی بات یہ کہ دین اور ایمان سے جسم خالی ہو جائے اور یہ بہت بڑی سزا ہے ابن عروہ کے خاندان کے لئے خود میرے لئے کیوں کہ میں علیؑ کی پیرو کار ہوں اور کسی صورت نہیں چاہوں گی کہ میرے دامن پہ کوئی داغ لگے صالحہ کے لیجے میں سختی تھی۔
ابھی تو آپ نے کہا کہ میری تربیت ہانی ابن عروہ کے جواں مرد بیٹے نے کی ہے تو کیا انہوں نے میرے دین کی آبیاری نہیں کی ہوگی؟ حزیفہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
ہاں کی ہے مگر صحبت اگر خراب مل جائے اور دوست اگر برے ہوں بے دین ہوں غیر تربیت یافتہ ہوں تو وہ ہمارے دین کی تباہی بن جاتے ہیں پھر ماں باپ کی تربیت اور خاندان کا وقار کچھ نہیں کرپاتا۔زہر تھوڑا بھی ہوتو انسان کو ختم کردیتا۔
امی میری پیاری امی میرے دوستوں میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے میرے دوستوں میں ایک تو حبیب ابن مظاہر کا بیٹا عبداللہ ہے ایک عابس بکری کا بیٹا کمیل ہے ایک میثم تمار کا بیٹا شبیب ہے اور ایک سلیمانِ صرد خزاعی کا بیٹا سعید ہے۔۔۔اس نے فوراً اپنے دوستوں کی فہرست گنوائی۔
ایک کو بھول گئے عبد اللہ جو عمر ابن سعد کا بیٹا ہے۔ صالحہ نے جھک کر اس کی آنکھوں میں دیکھا، کیا تم نہیں جانتے کہ ابن سعد کون ہے اور کیا ہے۔
جانتا ہوں امی اور عبد اللہ کو بھی ،اسے اس کے باپ نے کئی مرتبہ علؑ ی کا دم بھرنے پہ مارا ہے، تہہ خانے میں بند بھی کیا ہے اور اسے بھوکا پیاسا بھی رکھا ہے۔مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوا ۔۔
پھر؟۔۔پھر کیا ہوا؟انہوں نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔پھر امی اسے اس کے حال پہ چھوڑ دیا۔یقین کریں وہ کوفیوں کے عقیدوں سے بہت مختلف ہے۔وہ صرف مختار کا بھانجا ہے اور بس!
اچھا ٹھیک ہے جاؤ۔۔اللہ تمہارا محافظ ہو اور بنی کریم ﷺ کا تم پہ سایہ ہو۔صالحہ نے اٹھتے ہوئے کہا اور اسے باہر جاتے دیکھنے لگیں خدا کرے کہ عبداللہ ایسا ہی ہو۔۔جیسا کہ ۔۔۔۔جیسا کہ تم کہتے ہو اور اندر کی طرف مڑ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔****************۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارے تم نے آج بڑی دیر لگا دی۔کمیل نے حزیفہ کو آتے دیکھ کر کہااور اپنی لکڑی اٹھا کر پودوں پہ اگے پتوں کو مارنے لگا۔کیا ہوا تھا کیوں دیر کی۔
بس کچھ نہیں امی روٹی پکا رہی تھیں اورمیں ان کی مدد کر رہا تھا۔کیا شبیب ،عبداللہ اور ابن عمر نہیں آئے؟ حزیفہ نے کاندھے سے پوٹلی اتار کر زمیں پہ رکھ دی تھی اب وہ کمیل کے برابر میں آبیٹھا تھا۔
وہ آگئے ہیں بس ان کوزرا میں نے اس پہاڑی تک بھیجا ہے۔اس نے ہاتھ سے ایک جانب کو اشارہ کیا۔
کیا کوئی خبر ہے؟ حزیفہ نے زمیں سے پتھر اٹھاتے ہوئے اسے دیکھا۔
نہیں بس اتنا ہی معلوم ہوا ہے کہ وہ آرہے ہیں۔
مگر اتنے دن ہوگئے ہیں ابھی تک پہنچے کیوں نہیں؟ حزیفہ نے بے قراری سے پوچھا۔اوہو تم بھول گئے کہ وہ مدینہ سے آئیں گے راستہ طویل ہے وقت تو لگے گا ۔کوئی جادوئی سفر تو نہیں ہے کہ طویل راستے لمحوں میں طے ہوجائیں۔
مگر میرا دل چاہتا ہے کہ میرے پر لگ جائیں اور میں اڑ کر ان کے پاس جا پہنچوں۔حزیفہ نے دور آسمان پہ نگاہیں جماتے ہوئے کہا۔
لیکن ایک مسئلہ ہے اس جانب بھی تو سوچو۔۔۔کیا وہ ہمیں قبول کر لیں گے؟کمیل نے حزیفہ کی طرف دیکھا توحزیفہ بھی حیران ہوگیا اس طرح تو اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔کیوں نہیں قبول کریں گے وہ ہمیں؟حزیفہ نے حیرت سے کہا۔
کیوں کہ ان کو بڑے لوگوں کی ضرورت ہوگی نا۔۔۔۔ہم تو ابھی چھوٹے ہیں کمیل نے اپنے سر پہ ہاتھ مارکر کہا۔۔۔۔حزیفہ بھی سر پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا۔پریشانی کی بات تو تھی۔وہ جو اتنا بے قرار تھے ان کے لئے اگر انہوں نے ہی ان کا ساتھ قبول نہ کیا تو؟
ائے کیا بات ہے۔۔ یوں سر پہ ہاتھ رکھے کیوں چپ بیٹھے ہو آؤ لڑنے کی مشق کریں۔شبیب اور عبداللہ اور سعید نے ان کو یوں بیٹھے دیکھ کر آواز دی۔اور تینوں ان کے پاس آکر بیٹھ گئے۔کیا ہوا کچھ تو کہو۔۔۔ابن عمرنے ان کو ہلاتے ہوئے کہا۔۔۔۔اور جب حزیفہ نے اپنی دل کی بات بتائی تو ابنِ عمر ہنس دیا۔بھائیوں تم کیا نہیں جانتے کہ مسلم ابن عقیل کے ساتھ کون آرہا ہے؟
نہیں تو وہ دونوں حیران ہوکر ایک ساتھ کہہ اٹھے۔
ان کے ساتھ ان کے دو چھوٹے بیٹے بھی ہیں۔۔۔۔۔ابراہیم اور عون۔۔۔
کیا !!!وہ دونوں ایک دم حیران رہ گئے۔۔۔۔کیا کہا دوبارہ کہو۔۔۔۔حزیفہ نے ابن عمر کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔جی ہاں ان کے ساتھ ان کے دو بیٹے بھی ہیں اگر مسلم کو ہمارا ساتھ منظور نہ ہوتا تو اپنے دو بچے نہ لاتے۔۔۔جو بڑے ہیں وہ سب مسلم کی رکاب میں چلے جائیں گے اور ہم سب بچے ان کے بچوں کے ساتھ ہوں گے۔۔۔۔۔۔ابن عمر نے کہا، تو سب ایک ساتھ پکارے’’ انشاء اللہ‘‘۔۔تو چلو اب مشق کریں لڑنے کی؟ عبداللہ بن حبیب نے کہا تو سب نے اپنی اپنی لکڑیاں سنبھالیں اور لڑنے کی مشق کرنے لگے۔ اب ان کی مشق میں تیزی اور دل میں محبت کی شمع بھڑکی ہوئی تھی۔
َ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔**********۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی امی کہاں ہیں ۔۔۔۔ ۔
کیا ہوامیری جان کیوں شور کر رہے ہو؟ صالحہ نے اسے خود سے لپٹاتے ہوئے کہا۔
امی آپ کو کیا معلوم ہے کہ مسلم کے ساتھ کون آرہا ہے؟
آن ہاں۔۔۔کیا کوئی خبر ہے میری جان کے پاس؟صالحہ نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا اور اسے اپنے سامنے بٹھا لیا۔امی ان کے ساتھ ان کے دو بیٹے بھی ہیں جو ہمارے ہم عمر ہیں۔ ابراہیم اور عون۔ امی کتنا مزا آئے گا نا میں ان دونوں بچوں کا محافظ بن جاؤں گا اور انکی حفاظت کروں گا۔ اور ان کے ساتھ کھیلوں گا ان سے امام حسین اور امام حسن کی باتیں کروں گا۔۔۔ان سے بنی ہاشم کی باتیں پوچھوں گا۔حزیفہ کا لہجہ پرجوش تھا۔
ہاں بیٹا وہ کریم خاندان کے کریم بیٹے ہیں وہ جانتے ہوں گے نا کہ کوفے کے بچے بھی مولا کا ساتھ دینا چاہتے ہیں اسی لئے وہ بچوں کی خاطر اپنے بیٹے ساتھ لا رہے ہوں گے تا کہ بچے بھی اس عظیم نعمت سے محروم نہ رہ جائیں حسین کا ساتھ دینا اس وقت سب سے بڑی نعمتِ خدا ہے۔ میری جان قربان فاطمہؑ کے بیٹے پہ ۔۔۔صالحہ کی آواز میں درد کی اور محبت کی آمیزش تھی جس کی وجہ سے اس کی آواز میں لرزش پیدا ہوگئی تھی۔
امی میں بھی حسینؑ کے ساتھ ہوں حزیفہ نے اپنی امی کی آنکھوں کی نمی کو اپنی انگلیوں سے صاف کرتے ہوئے کہا۔
بیٹا جب تک جان میں جان ہے حسین سے جدا نہ ہونا ورنہ نہ دنیا کے رہو گے نہ آخرت کے۔۔۔ٹھیک ہے امی اب مجھے جلدی سے کھانا کھلا دیں حزیفہ نے صالحہ کو روتے دیکھ کر کہا،تو صالحہ اٹھ کھڑی ہوئیں اور اندر کی طرف بڑھتی چلی گئی۔آپ دیکھئے گا امی آپ کا بیٹا حسین پہ اپنی جان کیسے فدا کرتا ہے۔بس جنابِ مسلم کوآجانے دیں۔حزیفہ نے خود سے کہا اور زمین پہ بچھی ہوئی قالین پہ لیٹ کر آنکھیں بند کر کے خیالوں میں مسلم کو آتا دیکھنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔******************
دادا جانی بتائیں نا کہ مسلم کیسے ہیں؟حزیفہ نے ہانی کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
بیٹا وہ کریم ابن کریم ہیں وہ بہت بہادر ہیں۔ان کی تربیت علیؑ نے کی ہے، انہوں نے اپنا بچپنا علی اور حسن کے سائے میں گزارا ہے۔دادا جانی ان کا چہرہ کیسا ہے؟
بالکل امام علی کے بھائی عقیل کی طرح کچھ کچھ امام علی کی بھی شباہت آتی ہے ان میں۔۔۔
کیا واقعی؟ پھر میں ان کو دیکھوں گا تو ایسا لگے گا کہ میں علیؑ کو دیکھ رہا ہوں۔
ہاں بیٹا ایسا ہی ہے۔۔۔۔انہوں نے پیار سے اس کے بالوں پہ ہاتھ پھیرا۔۔۔۔۔اور ان کی آواز۔۔۔آواز ۔۔۔ کیسی ہے؟
ان کی آواز تو بہت خوبصورت ہے ایسا لگتا ہے کہ جیسے جنت کی ٹھنڈی ہوا چل رہی ہو لہجہ اتنا دھیما ہے جیسے نسیم صبح اور انداز بولنے کا ایسا ہے جیسے میرے امام حسینؑ بات کر رہے ہوں۔
اور دادا ان بنی ہاشم میں مسلم کیسے لگتے ہیں۔
بیٹا مسلم اور عباس دو شیر ہیں حسینؑ کے۔
شیر۔۔۔شیر۔۔۔یعنی دونوں بہت بہادر ہیں۔۔۔؟ حزیفہ نے اندازہ لگاتے ہوئے پوچھا۔
جی بیٹا ناصرف بہادر ہیں بلکہ علیؑ کی طرح شجاع بھی ہیں۔
اور چہرہ کیسا ہے ؟مطلب کہ دیکھنے میں کیسے لگتے ہیں؟۔۔۔۔بیٹا وہ دیکھنے میں بالکل چاند کی طرح لگتے ہیں اور بنی ہاشم کے وہ چاند ہی ہیں۔۔۔ دو تو چاند ہیں بنی ہاشم کے ایک عباس اور ایک مسلم۔۔۔ اور بیٹا بنی ہاشم میں ،سلم کا وقار اور مرتبہ بہت بلند ہے حسینؑ کے بعد اگر کسی کا مقام و مرتبہ ہے مردوں میں تو صرف مسلم اور عباس کا ۔۔۔۔اور حسینؑ نے اپنے خط میں بھی اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ’’مسلم کی بات میری بات ہے مسلم کی بیعت میری بیعت ہے۔‘‘،ہانی نے ایک گہری سانس لے کر کہا۔جاؤ دیکھو دروازے پہ کوئی آیا ہے۔ ۔وہ باہر آیا تو دیکھا کہ کوئی آدمی اس کے بابا سے بات کر رہا تھا وہ بھاگا بھاگا دادا کے پاس آگیا دادا ۔۔دادا جانی کوئی سلمان ابن صرد خزاعی کی طرف سے آیا ہے بابا اس سے بات کر رہے ہیں۔۔۔۔۔اس نے ایک ہی سانس میں سب کہہ دیا۔ ٹھیک ہے اب تم اپنی امی کے پاس جاؤ۔۔۔۔حزیفہ نے ان کے ہاتھوں پہ پیار کیا اور کھانے کے برتن اٹھا کر باہر چلا آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*************۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے دادا بتا رہے تھے کہ مسلم کی آواز حسینؑ کی آواز سے ملتی جلتی ہے اور چہرہ تو بالکل عقیل کی طرح ہے مگر علی کی شباہت آتی ہے ان میں۔۔۔۔اور پتہ ہے دادا بتا رہے تھے کہ مسلم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حزیفہ نے من و عن سب باتیں اپنے دوستوں کے گوش گزار کر دیں ۔۔۔۔اے اللہ جلدی سے آجائیں مسلم۔۔۔۔۔ سب نے دل سے دعا کی اور ایک بار پھر لڑائی کی مشق شروع کر دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*****************
مسلم آگئے ہیں جلدی آؤ۔۔۔۔۔ حزیفہ نے ایک کے بعد ایک کو گھر سے بلا کر کان میں بتایا۔اور سب کے سب مسجد کوفہ کی طرف بھاگے۔آج ان کے دل کی کلی کھل اٹھی تھی۔وہ مسلم کی زیارت کرنے کے لئے بے چین تھے۔آج انکی گویا عید تھی ان کے قدم تیزی سے مسجد کی طرف اٹھ رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔**********۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے ہی حزیفہ نے مسجد میں قدم رکھا ہر طرف چاندنی چٹکی ہوئی تھی۔ اور حسینؑ کا چاند آج مسجد میں چمک کر روشنی دے رہا تھا۔اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ نگاہیں اوپر کی طرف اٹھائیں۔۔۔سامنے مسلم کھڑے تھے ان کی آواز مسجد میں گونج رہی تھی۔ جیسے ہی اس نے ان کی طرف دیکھا اسی لمحے مسلم نے اس کی جانب دیکھا اور دھیرے سے مسکرادیئے،اس کی دل دھڑکن تیز ہو گئی۔۔۔اور اس کا چہرہ سرخ ہوگیا۔اسکو دادا کی بات یاد آرہی تھی کہ ان کے چہرے پہ کچھ کچھ شباہت علیؑ کی بھی آتی ہے۔وہ مسلم کے چہرے سے علؑ ی کی زیارت کر رہا تھا حسن ؑ اور حسین کی آواز سن رہا تھا۔اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب سب تقریر سن کر اپنے گھروں کو چلے گئے وہ تو تصور میں حسینؑ کے چہرہ کے حُسن میں کھویا ہوا تھا۔لگتا ہے کہ آپ ہانی کے پوتے ہیں آپ بھی اب گھر جائیں۔حبیب ابن مظاہر نے اسکا کاندھا ہلایا تووہ چونک اٹھا مسلم ابن عقیلؑ حبیب کے ساتھ تھے۔اس کی دل کی دھڑکن اور تیز ہوگئی اس کا حاصلِ زندگی اتنا قریب تھا۔ اس کا دل چاہا کہ مسلم کے قدموں میں اپنا سر رکھ دے ’’ چلئے ‘‘ حبیب کی آواز سے وہ چونک اٹھا اور مسلم ابن عقیل باہر کی طرف بڑھ گئے اور وہ ان کے قدموں کے نشان پہ جھکتا چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔**************۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلم ابن عقیلؑ کے ساتھ ساتھ وہ ہر جگہ نظر آتے تھے۔ ان پانچوں نے آس پاس کے ہر فرد پہ نگاہ رکھی ہوئی تھی۔وہ مسلم ابن عقیل کی ایک ایک بات کو ذہن نشین کر لیتے تھے ان فرصت کے لمحات میں ان باتوں پر آپس میں بحث و مباحثہ کیا کرتے تھے۔اب وہ کھیل کود سب چھوڑ چھاڑ کر مسلم ابن عقیل کے بیٹوں کے ساتھ لگے رہتے کبھی امام حسنؑ کی باتیں پوچھتے اور کبھی حسین ؑ کے بارے میں پوچھتے اور دونوں بغیر کسی تھکن یا بوریت محسوس کئے ان کی علمی تشنگی بجھاتے رہتے ۔ابراہیم کے بولنے کا انداز تو بہت دلنشین تھا۔ وہ زیادہ ترعلی اکبر ؑ کی ہی باتیں بتا تا رہتا کہ علی اکبرؑ مہمان نواز ہیں۔ ان کا دستر خوان بہت مشہور ہے۔ وہ تمام حجاجِ کرام کی مہمان نوازی کرتے ہیں۔ان کا دروازہ ہر مسلمان کے لئے کھلا رہتا ہے۔ جب بھی کوئی مسافر مدینے آتاہے تو علی اکبر کے دسترخوان سے کھانا کھانا سعادت سمجھتا ہے۔ اس کی ایک وجہ ان کا شبیہ رسولِ خداﷺ ہونا بھی ہے۔علی اکبر جب گھر سے باہر نکلتے ہیں تو چہرے پہ نقاب ڈال لیتے ہیں کیونکہ وہ ہو بہو رسولِ خداﷺ کے ہمشکل ہیں تو لوگ ان کو دیکھ کر احترام میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور جب تک وہ راستہ سے نہ گزر جائیں لوگ سر جھکائے کھڑے رہتے ہیں۔اور اتنے نرم دل ہیں کہ اگر کوئی ان سے کچھ مانگے تو کبھی انکار نہیں کرتے اور ہم بھائی بہنوں کا تو مان ہیں جب ہمیں دیکھتے ہیں فوراً ہمیں گود میں اٹھا لیتے ہیں خوب پیار کرتے ہیں۔ ہم سب بہن بھائی ان سے ہی تو پڑھتے ہیں۔اور عون کو تو ہر وقت علی اصغرؑ کی یاد آتی رہتی ہے۔ جب بھی اس سے بات کرو کسی نہ کسی بات سے علی اصغرؑ کا تذکرہ ضرور نکال لیتا ہے اور فوراً کہتا ہے کہ علی اصغرؑ بہت پیارا ہے اتنا خوبصورت ہے کہ امی کہتی ہیں کہ وہ میرے چچا علی کی ہم شکل ہے۔ اس لئے سب گھر والے اس کا بہت خیال رکھتے ہیں اب تو وہ چھ مہینے کا ہو گیا ہوگا۔
حزیفہ ان سب باتوں کو سن کر سوچ رہا تھا کہ کیا مجھے بھی کبھی شبیہ رسولِ خداﷺ کی زیارت نصیب ہوگی؟کیا میں کبھی شبیہِ علؑ ی کو دیکھ پاؤں گا؟اور سب بچے دل ہی دل میں عہد کر رہے تھے کہ وہ حسین ؑ کا ساتھ دیگے چاہے کچھ بھی ہوجائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔***********۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر حالات نے ایک دم سے پلٹا کھایا۔ کوفہ اب کوفہ نہیں بلکہ جہنم بن گیا تھا۔قتل و غارت اور جلاؤ گھراؤ ہو رہا تھا۔پھر ایک دن مسلم بھی شہید ہوگئے،مسلم کے بچے قید کر دیئے گئے،ہانی بھی شہید ہوگئے اور ان کے گھر میں توڑ پھر کی گئی ان کے گھر کے باقی لوگوں کو محصور کردیا گیا۔،حبیب ابنِ مظاہرؑ بھی رات کی تاریکی میں غائب ہو گئے۔ سلیمان کا بیٹا سعید بھی ایک کاروان کے ساتھ بھیس بدل کر کربلا کی طرف چلا گیا۔عابس بھی حج پہ گئے تو واپس نہ آئے کمیل اپنے والد کے دوستوں کے ساتھ کربلا کی طرف چلا گیا۔
، عمر ابن سعد اپنے ساتھ اپنے بڑے بیٹے حفض کو لے گیا،عبداللہ کو بھی لے جانا چاہ رہا تھا لیکن عبداللہ نے سختی سے منع کر دیا کہ میں آپ کے ساتھ رسولِ خدا ﷺ کو ناراض کرنے نہیں جاؤں گا اور اگر آپ نے زبردستی کی تو اپنی تلوار سے اپنا سر کاٹ لوں گا یوں وہ گھر میں ہی رہ گیا۔لیکن میثمِ تمار کا پوتا شبیب اپنے فرار ہوکر کربلا کی طرف روانہ ہونا چاہتا تھا کہ اسے صحابی رسول ﷺ نے روک لیا تھا کہ تمہیں ایک عظیم کام کرنا ہے اس لئے تم کہیں نہیں جا سکتے۔۔
پانچوں میں سے اب صرف تین ہی بچے تھے شبیب ،حزیفہ اور عبداللہ ابن عمر ابن سعد۔حزیفہ بھی جانا چاہتا تھا کربلا مگر اس کو ہانی نے اپنی شہادت سے پہلے ایک نیا کام سپرد کیا تھا اور کہا تھا کہ بیتا یہی آپ کی ذمہ داری ہے دین کی طرف سے۔اور حزیفہ نا چاہتے ہوئے بھی کوفہ رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔********،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کیوں پیچھے رہ گیا مجھے بھی حسینؑ کے پاس جانا ہے، حزیفہ بلک بلک کر رو رہا تھا۔ میری جان اس طرح نہیں روتے مسلم ابن عقیل سے زیادہ تم کیا حسین ؑ کو چاہتے ہو وہ ہم سب سے زیادہ ان کو چاہتے تھے لیکن حکم امام تھا وہ اس لئے راہی کوفہ ہوئے۔ صالحہ اس کو تسلی دے رہی تھیں۔
میرے بیٹے تمہارے سپرد جو کام ہے تم وہ کرو۔۔۔۔ آج سے تمہارا کام شروع ہوگا۔اٹھو اورکچھ کھا پی لو تا کہ اپنی ذمہ داری ادا کرسکو۔۔۔۔جی اچھا ۔اس نے آہستہ سے کہا۔اور اٹھ کر ایک گھونٹ پانی کوزے سے پیا۔صالحہ نے شکر کیا اس نے اپنی زمہ داری پوری کرنے کا عہد کیا ہے ۔ ہانی کی شہادت کے بعد سے اس نے کچھ نہیں کھایا پیا تھا اب اسنے اٹھ کر پانی پیا اور چند کھجوریں کھائی تھیں۔
شبیب ،عبد اللہ اور وہ کھیلتے کھیلتے مسجدِ کوفہ کی پچھلی طرف نکل گئے تھے۔وہاں کافی دیر تک تینوں کھیلتے رہے اور پھرجب گلی سنسان ہوئی تو شبیب ان کو اپنے گھر لے آیا۔
تم آگئے ؟ میثمِ تمار کی زوجہ نے صحن میں رکھے ایک پلنگ کو ہٹاتے ہوئے کہا ۔
جی امی شبیب اپنی والدہ کی طرف بڑھا۔’’آؤ میرے ساتھ آؤ‘‘ وہ تینو کو لے کر گھر کی پچھلی سمت آگئیں۔ یہاں آؤ۔۔۔یہاں ۔۔۔ہاں یہاں سے کام شروع کرو۔۔۔انہوں نے ایک سمت اشارہ کیا۔تینوں نے ایک ایک کدال اٹھائی اور کام شروع کردیا۔تینوں نے خوب محنت کی اور چند گھنٹوں کے بعد ایک قبر نما گڑھا تیار کرلیا۔
بچوں کی مدد سے انہوں نے ایک بڑا سا تخت اٹھا کر اس گھڑے پہ رکھ دیا۔اب تم تینوں جاؤ کمرے میں آتی ہوں۔انہوں نے مٹی کو صحن میں برابر کردیا اور اس پانی چھڑک دیا۔
شبیب کے کپڑے نکال کر انہوں نے ان کو دیئے اور کہا کہ جاؤ نہا کر یہ پہن لو اور اسی طرح کھیلتے کھیلتے اپنے اپنے گھر چلے جاؤ لیکن کسی کو اس بات کا علم نہ ہو اور حزیفہ تم اپنی دادی کو بھیج دینا رات کو میرے گھر۔
جی اچھا، سب نے شبیب کے کپڑے پہن لئے اورباہر کی راہ لی تینوں کھیلتے ہوئے اپنے گھر چلے گئے۔
رات کو ہانی کی بیوہ میثم تمار کے گھر چلی آئیں۔دونوں نے رات کی تاریکی میں ہانی کی لاش کو ایک گلی سے اٹھا کر میثمِ تمار کے گھر لاکر غسل دیا اور خاموشی سے نمازِ جنازہ پڑھ کر دفن بھی کردیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*************۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن پھر وہ مسجدِ کوفہ کے پا س کھیل رہے تھے،اور پھر مسجد کے پیچھے چلے گئے جہاں شبیب کا گھر تھا اب پھر وہ ایک قبر کھود رہے تھے۔اس رات ان تینوں نے مسلم ابن عوسجہ کو لا کر غسل دیاشبیب کی ماں غسل کا طریقہ بتا رہی تھیں۔اور وہ غسل دے رہے تھے۔ آج کی نمازِ جنازہ میں وہ تینوں اور میثمِ تمار کی بیوہ شامل تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔************۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیسرے دن پھر انہوں نے ایک قبر تیار کی اور اس رات انہوں نے حنظلہ جو کہ غلامِ مسلم ابن عوسجہ تھے کو کوفہ کی گلیوں سے اٹھایا اور غسل دے کر دفن کر دیا۔
َََََََََََََ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*************۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تینوں لاشیں کہاں چلی گئیں؟۔۔۔۔۔۔۔کوفہ کے لوگ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے۔لیکن کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ لاشیں کہاں گئیں۔
شاید کوئی جانور لے گیا ہوگا۔ کسی خارجی نے مزاق اڑآتے ہوئے کہا اور ہنسنے لگا۔
لیکن جانتے ہویہ ایسے شہیدوں کی لاشیں تھیں کہ جانور تو جنور ہم نے ان پہ ایک مکھی بیٹھتے نہیں دیکھی،کسی راہ گیر نے ایک دم جواب دیا۔
ہاں بھئی ہم نے ان کی لاشوں سے بو تک نہیں سونگھی، مسلم کی لاش دیکھ لو کب سے ٹنگی ہوئی ہے کوفہ کے دروازے پر، بد بو تو بدبو اس پہ کوئی مکھی یا مچھر بھی نہیں بیٹھتا، کسی نے پاس سے ہی کہا۔
ہاں میں اس طرف سے گزرا تھا اس میں سے خوشبو کی لپٹیں اٹھ رہیں تھیں۔ایک آدمی نے کہا تو سب کا سر جھک گیا۔آخر کو بنی ہاشم کا جوان تھا۔ علیؑ کا شیر تھا کوئی معمولی بات تو نہیں ہے نا۔کسی نے تھکن زدہ لہجے میں کہا۔
ہاں مجھے اب دکھ ہو رہا ہے کیوں ہم نے ان کا ساتھ چھوڑا۔۔۔۔افسردگی کے ساتھ کسی نے کہا۔
ہر طرف سے صدائیں آہ و بکا اٹھنے لگیں۔۔۔مسلم کی لاش وہ کام کر رہی تھیں جو بڑے بڑے خطیب نہیں کر پاتے۔مردہ ضمیر اب زندہ ہو رہے تھے۔۔۔۔مسلم بھی حجتِ خدا کی حجت تھے اور ان کی لاش بھی حجت تمام کر رہی تھی۔سب کے ذہن جھنجھوڑ رہی تھی کہہ تمہارے مردے تو دفن ہوں لیکن رسولِ خداﷺ کا گھرانہ بے گوروکفن ہو!
اور حزیفہ ان سب سے الگ تھلک کوفہ کے دروازے کے پاس اس روزانہ آکر اس جگہ بیٹھ جاتا تھا جہاں مسلم کی لاش لٹکی ہوئی تھی۔اور وہ بار باراپنے سر کو اوپر اٹھا کر کہتاتھا کہ اے کاش !!!مجھے پتہ چل جاتا کہ کیوں مسلم کی لاش کیلئے کوئی پیشن گوئی نہیں کی گئی اس کو دفن کا کیوں اختیارنہیں دیا گیا۔وہ ان کی لاش کے پاس بیٹھکر اپنے دل کا خون ان کے خون کے پاس بہاتا رہتا۔
اسی طرح ایک دن وہ بیٹھا مسلم کی لاش پہ رو رہا تھا کہ ایک دم اس نے دیکھا کہ مسلم کے سر کو جنبش ہوئی ہے۔۔۔اور وہ ایک دم اٹھ گیا کہ اب شاید مسلم اس سے کچھ کہیں گے۔۔۔۔ کہ ناگہاں مسلم کے سر سے آواز آئی۔۔۔’’السلامُ علیکَ یا علی ابن الحسینؑ ‘‘ وہ چونک اٹھا اس نے ایک دم مسلم کے سر کو پکڑ لیا اور کہنے لگا۔۔۔۔اے مسلم مجھے بھی کچھ کہیئے ۔۔۔۔۔خدا را مجھے بھی کچھ کہیے۔۔۔اسے لگا کہ سر کو جنبش ہوئی اور ایک آواز آئی اے حزیفہ اگر خدمت کا سچا جذبہ ہے تو میری بہن زینبؑ کے لئے چادریں لے آؤ۔۔۔اور حزیفہ نے بغیر کچھ پوچھے کہ کہاں زینبؑ اور کہاں کوفہ گھر کی جانب دوڑ لگادی۔ بس اس کے ذہن میں ایک ہی جملہ گردش کر رہا تھا کہ ’’اے حزیفہ میری بہن زینبؑ کے لئے چادر لے آؤ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔************۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
:نوٹ
راوی فرضی ہے لیکن حوالہ جات کے لئے مقتل کی کتابیں پڑھی جاسکتی ہیں۔
مقتل مفید
مقتل مطہری
معالی السبطین
نقوشِ عصمت
مقتل مفید
مقتل مطہری
معالی السبطین
نقوشِ عصمت
October 15, 2013 at 12:57 AM
Salam
Hazrat Muslim abn e Aqeel ki shahadat par Imam Mehdi as amd to Imam Hussain as ko Taziat pesh karty huy hazrat Wali e Faqih ki Khidmat meen bhi tasali o taziat pesh hay.
Or tamam Musalmanoo or Momino o Mominat ki Khidmat meen Pursa pesh hay.
Story Zaror parheen Muhabat e Ahleebait meen izafa hoga.
inshaAllah!