بسم اللہ الرحمٰن
الرحیم٭
وہ ولیمہ تھا یاد گار Qist: 1
تحریر: شبیہ زہرا
جعفری
سیما۔۔۔۔۔سیما۔۔۔۔سیما۔۔۔۔سیما۔۔۔۔دروازے
سے چیختے ہوئے حسن گھر میں داخل ہوئے۔ انکا انداز ایا تھا گویا کوئی ایسا کام کر کے
آئے جوانتہائی مشکل ہو اور اب احسان جتانے کے لئے آوازیں دے رہے ہوں۔ہوں۔۔۔۔ہاں۔۔ آرہی
ہوں۔۔۔میں نے کسلمندی سے اٹھتے ہوئے کہا۔ بلڈ پریشر کی دوا کھاکرمیں ابھی ابھی لیٹی
تھی اور اب اٹھا ہی نہیں جا رہا تھا لیکن حسن کے آواز دینے کے انداز سے لگ رہاتھا کہ
بات کئے بغیر جانے والا نہیں ہے۔گھر میں میرے علاوہ میرے تین بیٹے دو بہؤیں اورموجود
تھیں جو آنے جانے والوں کو خوب اچھی کمپنی دے دیتے تھے خاص طور پہ اس وقت جب میں دوائی
کھاکے لیٹتی تھی۔حسن میرا بھائی تھا اور وہ آئے دن پاکستان سے باہر ہی ہوتا تھا۔پہلے
وہ زیارتی قافلے لے جایا کرتا تھا اب وہ حج کے قافلے بھی لے جارہا تھا۔اس لئے میری
اس سے ملاقات کم کم ہی ہوتی تھی اس وقت وہ جس انداز میں آوازیں دیتا ہوا آیا تھا اس
سے لگ رہا تھا کہ یا تو اس کا کوئی ٹکٹ نکل آیا ہے یا لاٹری یا پھر کوئی بہت بڑی بات
ہے۔اسی لئے میں اٹھ بھی گئی اس کے پاس جانے کے لئے وہ جب بھی آتا تھا آتے ہی ہمارے
چھوٹے سے صحن میں کرسی بچھا کر بیٹھ جاتا تھا۔وہ اب شجاع اور رضا کے ساتھ خوشگپیوں
میں مشغول تھا۔سامنے ٹرے میں چائے،کباب اور بسکٹ رکھے ہوئے تھے۔شجاع کی بیوی اس کے
لئے حلوہ بنانے میں مشغول تھی۔
ہاں کیا ہوا بہت ایکسائیٹڈ
ہورہے تھے۔کہو کیا بات ہے؟ میں نے اس کے پاس کرسی پہ بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
ارے سیما یہ کہو کہ
کیا نہیں ہوا؟اس نے پلیٹ سے کباب اٹھایا۔
کیا مطلب ہے؟مین نے
حیرت سے اسے دیکھا، پھر اپنے بیٹوں کو کہ شاید اس نے بچوں کو کچھ بتایا ہو۔
ارے بھئی میں نے بہت
بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔۔۔اتنا بڑا کہ تم سوچ بھی نہیں سکتیں۔۔۔اس نے کباب سے انصاف
کرتے ہوئے ہنس کر کہا۔
مگر ہوا کیا ہے؟ میں
اب تک نہیں سمجھ پارہی تھی کہ بات کیا ہے۔
ارے سیما وہی نظر علی اور سکینہ۔۔۔۔۔اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ہاں۔۔۔۔ہاں۔۔نظر علی
اور سکینہ۔۔۔تو۔۔۔ کیا ہوا؟
دیکھو میں نے ان کا
سب سے بڑا بوجھ اتار دیا ہے۔۔۔۔۔مگر ایک کام رہ گیا ہے؟میں جانتی تھی کہ وہ نظر علی
اور سکینہ سے بے حد پیار کرتا تھا کونسا بوجھ؟
وہی جس کے لئے وہ
کہتے تھے کہ میں اس کے بغیر ادھورا اور نا مکمل ہوں۔
اوہ! کیا واقعی؟ میں
نے حیرت سے اسے دیکھا اورخدا کا شکر ادا کیا۔
بس ایک کام رہ گیا
ہے وہ اب تم کرلو۔
اچھا! وہ کیا!خاندان
کا شاید ہی کوئی فرد ہوگا جو ان دودنوں کے کسی کام کو منع کرے یا ان کے کسی کام کوکرنے
میں ہوں ہاں کرے۔میں بھی انہی لوگوں میں سے تھی۔ انکا کام کرنا باعثِ فخر سمجھتی تھی۔وہ بھی تو ہر ایک کاکام اس طرح لپک
لپک کر تے تھے کہ گویا انکا خود کا کام ہو۔
بس اب ولیمہ رہ گیا
ہے انکا!وہ تم کرلو!
اوہ! ٹھیک ہے! میں
تیار ہوں تم فکر نہ کرو!میں جانتی تھی کہ میرے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہے کہ میں نظر
علی اور سکینہ کا ولیمہ کرسکوں۔مگر انکا کام نہ کرنا یہ میرے لئے بہت بڑی تکلیف دہ
بات تھی بس اللہ کے سہارے پہ میں نے ہاں کردی۔اور ہاں کرتے ہوئے یہ بھی نہیں سوچا تھا
کہ نظر علی اور سکینہ کے سب خاندان والوں کو کس طرح اطلاع دوں گی اور کسطرح ان سب کو
بتاؤں گی کہ ان کا ویمہ ہے! لیکن خدا کے لئے جب نیت خالص ہو تی ہے تو وہ مددگار بن
جاتا ہے اور اس طرح کام بنا دیتا ہے کہ جو ہماری سوچ میں بھی نہیں آسکتے۔
حسن تو میری ذمہ داری
مجھ پہ ڈال گئے لیکن میں اتنی بڑی ذمہ داری اپنے کاندھوں پہ کیسے اٹھااؤں گی! یہ سوچ
سوچ کر میں پریشان ہورہی تھی۔میں نے دو رکعت نماز پڑھ کر خدا سے مدد مانگی کہ اس اہم
کام میں وہ میری مدد فرمائے۔اگلے دن میں پریشانی کی حالت میں بیٹھی ہوئی خدا سے دعا
مانگ رہی تھی کہ میرے چھوٹے بھائی کا فون آگیا۔میں نے اسے بتایا کہ نظر علی اور سکینہ
کا ولیمہ کرنا ہے!
پہلے تو وہ بھی حیران
ہوا پھر پوچھنے لگا کہ کب کرنا ہے؟ میں نے اس کو بتایا کہ میرا ارادہ ربیع الاول تک
کرنے کا ہے لیکن مجھے مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اس نے فوراً کہا کہ اگر
بات نظر علی اورسکینہ کی ہوتو جتنا کہو میں اس میں حصہ ڈالنے کے لئے تیار ہوں۔ میں
نے فوراً اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے میرا مسئلہ میرے ہی بھائی کے زریعے حل کروادیا۔وہ
پوچھنے لگا کہ یہ ولیمہ کروگی کہاں؟
یہ بھی ایک مسئلہ
تھا کہ کریں تو کہاں کریں؟کسی لان میں کسی میدان میں یاگھر میں؟اور اگر گھرمیں تو کس
کے گھر میں ہم اپنے گھر میں کریں یا ان کے گھر میں؟
میں اس سے کہا کہ
میں سوچ کے بتاؤ گی۔۔میں نے سوچنے کے لئے صرف ایک دن لیا اور خوب سوچا۔
بالآخر اس نتیجہ پہ
پہنچی کہ ولیمہ فارم ہاؤس پہ ہوگا اس طرح خاندان کی پکنک بھی ہوجائے گی اور ولیمہ بھی
ہوجائے گا اور دن سترہ ربیع الاول تاکہ رسولِ خدا ﷺ کی ولادت کی خوشی
میں ہماری خوشیاں دوبالا ہوجائیں۔اتفاق سے دن بھی ہفتہ پڑ رہا تھا۔
پھر میں نے بسم اللہ
پڑھ کر نظر علی اور سکینہ کے تمام خاندان والوں کو ایک ایک کر کے فون کیا۔جس نے بھی
سنا کہ نظر علی اور سکینہ کا ولیمہ ہے سب کوحیرت ہوئی۔ جب سب کو یقین آیا کہ انہی کا
ولیمہ ہے! توسب ہی مان گئے!جتنے بھی ان کے عزیزوں کو فون کئے سب نے آنے کی ھامی بھر
لی سوائے ایک دو کے جن کے پاس ریزن یہ تھا کہ بچوں کے امتحان ہیں اور واقعی اسکولوں
کے سالانہ امتحانات کا سیزن تھا اس لئے ان کی معزرت قبول کرنی پڑی ورنہ ایک دن سے پڑھائی
پہ کیا اثر پڑتا ہے۔لیکن بہرحال جو خوشی سے آنے میں مزا ہے وہ زبردستی کے آنے میں کہاں!
چوتھے دن میرے بڑے
بھائی آگئے۔۔سیما تم ولیمہ کر رہی نظر علی کا میں آنے جانے کے لئے تین بس کردیتا ہوں۔
تین بسیں! بھائی دو
بھی کافی ہیں کیونکہ کچھ تو اپنی گاڑی میں ہی آئیں گے۔میں نے ولیمہ کا کارڈ انکی طرف
بڑھایا یہ خاندان کے جو بزرگ ہیں ان کے لئے ہیں۔۔۔ میں نے کچھ کارڈز اپنی شاگردوں سے
بنوائے تھے، وہ انکے ہاتھ میں دیئے آپ یہ دے آئیں گے۔
ہاں کیوں نہیں میں
آج ہی دے دوں گا تم فکر نہ کرو۔کھانے کا آرڈر کر دیا؟ انہوں نے کارڈز پڑھتے ہوئے پوچھا۔
ہاں۔۔ دے دیا ہے۔وہ
ہمیں جاتے ہوئے لے کر جانا ہوگا۔
ٹھیک ہے میں اپنی
گاڑی میں لے جاؤں گا۔
کولڈ ڈرنک اور آئس
کریم وہیں سے لے لیں گے، آم کی چھ پیٹیاں ہیں جو ماموں نے دی ہیں۔وہ بھی میرا خیال
ہے آپ کی گاڑی میں آجائیں گی۔نہیں نہیں اتنی بڑی گاڑی نہیں ہے دو تین آجائیں گی باقی
بس میں رکھ لینا۔بھائی نے اٹھتے ہوئے کہا اور چائے پی کر وہ رخصت ہوگیا۔میرے بچے بھی
بہت ایکسائیٹڈ ہو رہے تھے فارم ہوؤس کے لئے نہیں بلکہ نظر علی اور سکینہ کے ولیمے کے
لئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولیمے سے ایک دن پہلے
میں نے سبکو دوبارہ فون کیا کچھ نے خود ہی فون کر کے بتا دیا کہ وہ کل فارم ہاؤس آئیں
گے ولیمے میں شریک ہونے کے لئے۔ میں نے سب کا دل سے شکریہ ادا کیا کہ وہ اپنے قیمتی
وقت سے ٹائم نکال رہے ہیں اور اس کا صلہ کو کوئی نہیں دے سکتا۔سب نے ہمارا بھی شکریہ
ادا کیا کہ ہم نے نظر علی اور سکینہ کے لئے اتنا کچھ کیا۔ورنہ آج کل کون کسی کے لئے
کچھ کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فارم ہاؤس پہ آہستہ
آہستہ سب آرہے تھے۔ہم نے فارم ہاؤس میں ایک
اچھی سی جگہ دیکھ کر وہاں پہ ساتھ لائی ہوئی دریاں بچھائیں اور اس پہ ایک خوبصورت چادر بچھائی اور فارم ہاؤس والوں سے
ایک تخت لے کر اس پہ کارپٹ بچھایا اور اس پہ گاؤں تکیئے لگا دیئے، جو میں اپنے گھر
سے لائی تھی۔دو بسیں بھری ہوئی پہنچیں تو جب تک ہم ساری سجاوٹ کر چکے تھے۔سب ایک ساتھ
بس سے اتر کر آئے تو ایسا لگا کہ واقعی بارات آئی ہو حسن نے سب پہ پھولوں کی پتیاں
نچھاور کیں اور بڑے بھائی نے آنے والے آدمیوں کو پھولوں کا ایک چھوتا گلدستہ پیش کیا
خواتین کو ایک ایک کنگن دیئے۔
سب چادر پہ بیٹھ گئے
پھر میرے ماموں اور دو سرے خاندان کے لڑکوں نے قصیدے پڑھنا شروع کئے! میں نے پھولوں
کی پتیوں میں ٹافیاں اور سپاریاں رکھ کر نچھاور کیں بچوں کے تو مزے آگئے تھے سب بچے
ٹافیاں اور سپاریاں جمع کر کر کے بڑوں کو دے رہے تھے۔
میلاد میں جب قصیدے
ختم ہوئے تو حسن تخت پہ بیٹھ گیا اس نے پہلے تو سیرتِ رسولِ خداﷺ بیان کی پھر کہنے
لگا کہ آپ سب بڑوں کو تو معلوم ہے کہ نظر علی اور سکینہ کا ولیمہ ہے! مگر یہ نظر علی
اور سکینہ کون ہیں؟یہ بچوں اور نئی والی نئی
بہؤں اور دامادوں کو معلوم نہیں ہوگا۔تو میں بتا دوں کہ یہ کون ہیں؟اس نے ہنس کر سب
کو دیکھااور کہا نظر علی اور سکینہ۔۔۔۔۔میری، سیما وجاہت اور وقار کے نانا اور نانی
ہیں!
کیا! ایک سات کئی
آوازیں ابھریں۔
جی ہاں! اس نے کہا!
مگر ان کو تو مرے
ہوئے بھی کئی سال ہوگئے! اب ولیمہ!؟؟؟؟
سب حیرت زدہ رہ گئے!
جی اب ولیمہ! اس نے
ہنس کرکہا۔۔۔
اصل میں ولیمہ صرف
شادی کا تو نہیں ہوتانا! حسن نے پھر سے کہا۔تو پھر! ایک لڑکے نے کھڑے ہوکہا۔
تو پھر یہ کہ۔۔۔۔
میں نے اس سال نانا کی طرفٖ سے حج کیا ہے اور
اب ولیمہ تو ڈیو ہاگیا تھانا!تو سیما نے انکا ولیمہ کردیا۔
ہاہاہا!!!نانا پر
نانی کا ولیمہ!بچے چیخنے لگے۔
ہاں بچوں یہ آپکے
پرنانا اور پرنانی کا ولیمہ ہے اور ہمارے بڑوں
کے نانا اور نانی کا ولیمہ ہے۔۔۔حسن نے خوش دلی سے کہا۔خوب مزے کرو انجوائے کرو اور
یاد رکھو جو بڑوں کی عزت انکی زندگی میں اور ان کے مرنے کے بعد بھی کرتا ہے اللہ ان
کو دنیا اور آخرت میں بہت نوازتا ہے۔اپنے ماں باپ کا احترام کرو ان کی عزت کرو اور
دادا دادی اور نانا نانی کا بھی عزت و احترام ویسے ہی کرو جیسے اپنے ماں باپ کا کرتے
ہو۔حسن نے کہا اور پھر کچھ اھادیثِ رسولﷺ بیان کیں ماں باپ
کے اور بزرگوں کے احترام کی اور پھر نانا نانی کے لئے سورہ فاتحہ پڑھا کر تخت سے اتر
گیا۔ لڑکوں نے خوب قصیدے پڑھے پھر سلام پرھ کر میلاد ختم ہوا تبرک بانٹا گیا اور پھر
سب تفریح کرنے چلدیئے۔
دوپہر کو کھانے کے
وقت پھر دسترخوان لگا اور سب نانا اور نانی کا پورا خاندان ایک ہی دسترخوان پہ آبیٹھا۔
ان میں کچھ ایسے بھی تھے جن کی کئی کئی مہینوں سے کسی وجہ سے لڑائی ہوئی تھی اور بول
چال بند تھی لیکن آج سب ایک دوسرے کے قریب آگئے تھے۔گلے شکوے دور ہوگئے تھے۔سب ایک
دسترخوان پہ بیٹھے ہوئے کھانا کھا رہے تھے۔یہ روھ پرور سما دیکھ کر معلوم نہیں کیوں
خود بخود میرے دل سے ایک آواز آئی کہ میں بھی حج پہ جاؤں گی تو حسن کے ساتھ ہی جاؤں
گی۔بس یہ ایک صدا تھی جو دل سے اتھی تھی میں جانتی تھی کہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے کیوں
کہ حج تو صاحبِ استطاعت پہ فرض ہے اور میں تو صحبِ استطاعت نہیں ہوں نہ ہی میرے شوہر
کی کوئی اتنی آمدنی ہے نہ بچوں کی کہ میں حج کرنے جا سکوں۔
کھانے کے بعد میں
نے اور حسن نے سب کو کولڈ ڈرنک پلائی اور آم سب کو پیش کئے۔
اتنا بہترین ولیمہ
کیا ہے۔۔۔اللہ تمہیں خوش رکھے، میری خالہ نے کہا،اتنا شاندار ولیمہ تو میری شادی کا
نہیں ہوا تھا جتنا امی کے حج کا ہوگیا۔
اتنا تو اولاد نہیں
کرتی جتنا نواسوں اور نواسی نے کر دیا۔میری ممانی نے بھی مجھے گلے لگا کر کہا۔ اور
میں بس مسکرا ہت پہ ہیاکتفا کرتی رہی اور سبکی آمد پہ انکا شکریہ ادا کرتی رہی۔
کھانے کے بعد پھر
سب گھومنے نکل گئے شام میں چائے کے ساتھ ساتھ کچھ ریفریش منٹ بھی سب کے لئے رکھی گئی
چائے وجاہت بھائی نے لکڑیاں جمع کر کے ایک
بڑے پتیلے میں بنائی تھی۔چائے کے بعد ہم سب نے گروپ فوٹو بنوائے تاکہ یاد گار رہیں
تقریباً ستر اسی کے قریب نانا اور نانی کے سب رشتے دار تھے نہ آنے والے بھی آجاتے
تو سو سے اوپر ہوجاتے۔ لیکن خیر! رات کو ہم سب نے ایک دوسرے سے رخصت لی اور
گھر کی طرف چل پڑے۔ اور یوں یہ ایک یاد گار ولیمہ اختتام پزیر ہوا۔